1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین ترکی کے بغیر ’نامکمل‘ ہے، ایردوآن

عاطف بلوچ، روئٹرز AFP
10 جنوری 2017

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے مطالبہ کیا ہے کہ یورپی یونین ترکی کی رکنیت کے حوالے سے معطل شُدہ مذاکراتی عمل پھر سے شروع کرے۔ ایردوآن کا کہنا ہے کہ ترکی کے بغیر یورپی یونین ’نامکمل‘ ہے۔

https://p.dw.com/p/2VZG7
Türkei Recep Tayyip Erdogan
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Ozer

رجب طیب ایردوآن نے واضح انداز میں کہا کہ یورپی یونین ترکی کے ساتھ طے کردہ معاہدے کے تحت فوری طور پر ترک شہریوں کے لیے شینگن ممالک کے ویزہ فری سفر کی اجازت دے۔ گزشتہ برس مارچ میں طے پانے والے اس معاہدے کے تحت ترکی کو پابند بنایا گیا تھا کہ وہ اپنے ہاں سے مہاجرین کو غیرقانونی طور پر بحیرہء ایجیئن عبور کر کے یونان پہنچنے سے روکے جب کہ اس کے بدلے میں دیگر مراعات کے علاوہ ترک شہریوں کے لیے شینگن ممالک کے ویزہ فری سفر کا وعدہ بھی کیا گیا تھا، جس پر اب تک عمل درآمد نہیں ہو پایا ہے۔ یورپی یونین کا موقف ہے کہ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد جاری کریک ڈاؤن کی آڑ میں حکومت مخالف عناصر کے خلاف کارروائیاں، دہشت گردی سے متعلق سخت قوانین اور آزادیٴ اظہار پر قدغنیں ختم ہونے کے بعد ہی ویزا فری انٹری سے متعلق یورپی وعدے پر عمل درآمد ممکن ہو سکے گا۔

Türkei - Sicherheit - Ausnahmezustand
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے سخت ترین کریک ڈاؤن جاری ہےتصویر: picture alliance/AP Photo/E. Gurel

پیر کے روز اپنے ایک بیان میں ایردوآن نے ایک بار پھر یورپی یونین پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یورپی یونین ترکی کے لیے اب بھی بہترین اسٹریٹیجک انتخاب ہے، تاہم یورپی یونین کی بے ربط پالیسیاں اور ہمارے ملک کی بابت دوہرے معیارات کو اندھے بن کر قبول نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

ترک وزیرخارجہ مولود چاوُش اولو کا کہنا ہے کہ یورپی یونین رکنیت کے حوالے سے مذاکرات میں حائل ’مصنوعی رکاوٹوں‘ کے خاتمے کے لیے مزید وضاحتیں کرے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ انقرہ حکومت ترک شہریوں کے لیے یورپ میں داخلے کے لیے ویزے کی پابندی جلد ختم ہو جانے کی امید کر رہی ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ ترکی کی آبادی 80 ملین ہے، جب کہ ترکی میں سیاسی افراتفری اور رجب طیب ایردوآن کے سخت طرز حکومت کی وجہ سے متعدد صحافی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ ترک شہری یورپی ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواست دائر کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور ایسے میں ترکی کے لیے ویزے کی پابندیاں ختم کرنے پر متعدد یورپی ممالک کی جانب سے مخالفت دیکھنے میں آ رہی ہے۔