یورپی عدالت کا تارکین وطن کے حق میں فیصلہ
31 مارچ 2017سن 2013ء میں کھیتوں سے اسٹرابری چننے والے مزدوں کے اس گروپ نے اپنی تنخواہوں کا مطالبہ کیا تھا، جس پر ان پر فائرنگ کر دی گئی تھی۔ یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے اب یونانی حکومت سے کہا ہے کہ وہ ایسے ہر تارک وطن کو 12 تا 16 ہزار یورو ہرجانے کی رقم ادا کرے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یونانی حکومت انسانوں کی اسمگلنگ روکنے اور متاثرہ افراد کے تحفظ میں ناکام رہی۔
جمعرات کے روز یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے کہا کہ یونانی حکومت کو متاثرہ افراد کا تحفط یقینی بنانا چاہیے تھا، تاہم وہ اس میں ناکام رہی۔
سن 2013ء میں یہ واقعہ یونانی علاقے مانولادا میں پیش آیا تھا۔ دارالحکومت ایتھنز سے دو سو ساٹھ کلومیٹر دور واقع اس علاقے میں 42 بنگلہ دیشی تارکین وطن مزدوروں کا یہ گروپ اسٹرابری جمع کرنے کے کام میں جتا تھا۔ اس گروپ نے اپنی تنخواہیں مانگیں، تو متعلقہ کھیت کے مالک نے ان پر فائرنگ کر دی تھی، جس کے نتیجے میں متعدد مزدور زخمی ہو گئے تھے۔
یونانی عدالت نے اس واقعے میں ملوث دو افراد کو مجرم قرار دیا تھا، تاہم بعد میں ان کی اپیل پر انہیں رہا کر دیا گیا تھا، جس کے بعد یورپی عدالت برائے انسانی حقوق میں ایک مقدمہ دائر کر دیا گیا تھا۔
یورپی سطح پر اس مقدمے میں اہم درخواست گزار مرشد چوہدری تھے جب کہ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔
اشٹراس برگ میں واقع یورپی عدالت برائے انسانی حقوق یورپ بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملات کو یورپی قانون کے تحت نمٹاتی ہے۔
اس فیصلے کے بعد مرشد چوہدری نے کہا، ’’ہم اس فیصلے سے خوش ہیں۔ یونانی عدالت کی جانب سے مزدوں سے جبری مشقت لینے والے کسانوں کو رہا کر دینے پر ہمیں شدید مایوسی ہوئی تھی۔‘‘
چوہدری نے مزید کہا، ’’ہمیں امید ہے کہ یونانی حکومت ہمارے تجربے سے کوئی سبق سیکھے گی اور یونانی اقتصادیات میں ہمارے اہم کردار کا اعتراف کرے گی۔‘‘