یمن: نمازِ عید کے دوران خود کُش حملہ، کم از کم 25 ہلاک
24 ستمبر 2015نیوز ایجنسیوں کی متفقہ رپورٹوں کے مطابق یہ حملہ صنعاء کے الصفیہ علاقے میں واقع البلیلی مسجد میں اُس وقت ہوا، جب مسلمان عید الاضحیٰ کی نماز ادا کر رہے تھے۔ طبی ذرائع اور عینی شاہدوں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ مرنے والوں کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اس حملے کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئےہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے مرنے والوں کی کم از کم تعداد دَس بتائی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتایا ہے کہ مقامی عرب میڈیا مرنے والوں کی تعداد پچیس بتا رہا ہے۔ روئٹرز نے مسجد کے قریب رہائش پذیر ایک شخص نائف کا حوالہ دیا ہے، جس کا کہنا ہے کہ اُس نے پہلے ایک دھماکے کی آواز سنی، جس کے فوراً ہی بعد دوسرا دھماکا ہو گیا:’’ہم زخمیوں کو بچانے کے لیے جمع ہو گئے۔ صورتِ حال بہت تکلیف دہ ہے، ہر طرف خون ہی خون بکھرا ہوا ہے۔‘‘ اس مہینے کے دوران یہ دوسرا موقع ہے کہ زیدی شیعوں کی کسی مسجد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
اگرچہ ابھی تک کسی بھی گروپ نے اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے یمنی دارالحکومت میں تواتر سے ایسے حملے ہوتے رہے ہیں، جن کی ذمے داری شیعوں کو کافر قرار دینے والا دہشت گرد گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ قبول کرتا رہا ہے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق البلیلی وہ مسجد ہے، جس میں عموماً صنعاء کو کنٹرول کرنے والے شیعہ باغی نماز ادا کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق یہ حملہ دو خود کُش حملہ آوروں نے کیا، وہاں اے ایف پی کا کہنا ہے کہ پہلے ایک دھماکا مسجد کے اندر ہوا، جس کی نوعیت کے بارے میں قطعی طور پر ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جب مسجد کے اندر بھگدڑ مچی اور لوگ تیزی سے باہر کو بھاگے تو گیٹ پر کھڑے ایک حملہ آور نے اپنی بارودی جیکٹ کو دھماکے سے اڑا دیا۔
اس سال اکیس مارچ کو ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے صنعاء میں متعدد مساجد کو نشانہ بنایا تھا۔ اُن حملوں میں 142 افراد مارے گئے تھے۔
شیعہ حوثی باغیوں کو گزشتہ تقریباً ایک سال سے یمن کے دارالحکومت کے ساتھ ساتھ ملک کے زیادہ تر حصوں پر کنٹرول حاصل ہے۔ اس سال چھبیس مارچ کو سعودی عرب اور اُس کے اتحادیوں نے حوثی باغیوں کے خلاف فضائی حملوں کا آغاز کیا تھا جبکہ اس سال جولائی سے ایک زمینی آپریشن بھی شروع کیا جا چکا ہے۔ اقوام محدہ کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ کے اواخر سے اب تک یمن میں بڑی تعداد میں عام شہریوں سمیت تقریباً پانچ ہزار افراد ہلاک اور پچیس ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔