یمن میں شہری ہلاکتوں پر عالمی اداروں کی تشویش
18 ستمبر 2009نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے صنعا حکام پر زور دیا ہے کہ شہریوں کے خلاف کسی بھی حملے کی باقاعدہ اور منصفانہ تحقیقات کی جائیں۔ اس تنظیم نے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ شہریوں کے تحفظ کے لئے بین الاقوامی قوانین کا احترام کریں۔ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین اور انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس نے بھی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے پر زور دیا ہے۔
عینی شاہدین کاکہنا ہے کہ یمن کے شمالی علاقے میں جمعرات کو پناہ گزینوں کے ایک عارضی کیمپ پر فضائی حملے کے دوران بڑی تعداد میں بچوں اور خواتین سمیت 87 شہری ہلاک ہو ئے۔ یہ حملہ صوبہ امران میں ادی کے شورش زدہ علاقے میں ہوا، جہاں فوج باغیوں کے خلاف آپریشن 'اسکارچ ارتھ' میں مصروف ہے۔ یہ آپریشن 11 اگست سے جاری ہے۔
یمنی حکام نے حملے کی تصدیق کی ہے تاہم ہلاکتوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ خبررساں ادارے 'اے ایف پی' نے حکام کے حوالے سے بتایا کہ جیٹ طیاروں نے ہوتھی باغیوں کو نشانہ بنایا، جو پناہ گزینوں کے ہجوم میں چھپ کر فائرنگ کر رہے تھے۔
دوسری جانب باغیوں نے ایک بیان میں اس حملے کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے صنعا حکومت پر قتل عام کا الزام عائد کیا ہے۔ شیعہ اپوزیشن جماعت الحق نے بھی ان حملوں کو قتل عام قرار دیا ہے۔
سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ حکومت اس حملے میں شہریوں کی ہلاکتوں کی تحقیقات کرے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ باغی شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
باغی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کے نام ایک خط میں غیرمشروط فائربندی کی پیش کش بھی کر چکے ہیں۔ تاہم یمنی حکام کا کہنا ہے کہ باغی فائربندی کی پہلے سے موجود حکومتی پیش کش میں درج چھ شرائط پر عمل کریں، جن میں ان سے مکمل طور پر غیرمسلح ہونے کے لئے بھی کہا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق 2004ء سے جاری لڑائی کے نتیجے میں صعدہ اور اس کے نواحی علاقوں سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ لڑائی کے تازہ مرحلے میں پچپن ہزار افراد اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ یمنی شہر صعدہ میں انسانی صورت حال انتہائی ڈرامائی رُخ اختیار کر چکی ہے، جو حالیہ آپریشن کے دوران دیگر علاقوں سے کٹ چکا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ صعدہ میں پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں جبکہ خوراک کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ باغی زیدی شیعہ امامت بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو 1962ء میں فوج کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کے دوران ختم کر دی گئی تھی۔ بعدازاں ملک میں آٹھ برس تک خانہ جنگی جاری رہی تھی۔
زیدی ایک شیعہ گروپ ہے، جو سنی اکثریت والی مشرق وسطیٰ کی اس ریاست میں ایک اقلیت ہے۔ تاہم ملک کے شمالی علاقوں میں یہ کمیونٹی اکثریت میں ہے۔ زیدی باغیوں کو ہوتھیز کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ فوج نے ان کے رہنما حسین بدرالدین الہوتھی کو ستمبر 2004ء میں ہلاک کر دیا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: امجد علی