ہیلتھ وارننگ: نیا بھارتی قانون مبہم، سگریٹوں کی پیداوار بند
1 اپریل 2016دارالحکومت نئی دہلی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ملک میں تمباکو کی صنعت کے نمائندہ ایک سرکردہ ادارے کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ جمعہ یکم اپریل سے جن کمپنیوں نے اپنی سگریٹوں کی پیداوار معطل کر دی ہے، ان میں انڈین ٹوبیکو کمپنی یا ITC بھی شامل ہے، جو جزوی طور پر برٹش امیریکن ٹوبیکو نامی ادارے کی ملکیت ہے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ بھارتی تمباکو کمپنیوں نے اپنے پروڈکشن یونٹوں میں سگریٹوں کی پیداوار یکم اپریل جمعے کے دن سے اس لیے بند کر دی کہ اس حوالے سے نئے بھارتی قوانین بہت غیر واضح ہیں کہ سگریٹ کے پیکٹوں پر تمباکو نوش افراد کے لیے شائع کی جانے والی صحت سے متعلق تنبیہات کتنی نمایاں ہونی چاہییں۔
سگریٹوں کی پیداوار کی معطلی کا ایک پس منظر یہ بھی ہے کہ بھارت میں، جو دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اور جہاں آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ تمباکو نوشی کرتا ہے، اب تک یہ قانون رائج تھا کہ تمباکو مصنوعات کے ہر پیکٹ کے پانچویں (20 فیصد) حصے پر صارفین کے لیے ہیلتھ وارننگ شائع کی جانی چاہیے۔
اس پرانے قانون کے برعکس آج یکم اپریل سے وہ نیا قانون نافذالعمل ہو گیا ہے، جس کے اطلاق میں ایک سال کی تاخیر تو کی گئی تھی لیکن جس کے مطابق اب سگریٹ کمپنیوں کے لیے لازم ہے کہ وہ ہر پیکٹ کے 85 فیصد حصے پر صارفین کے لیے تنبیہی پیغامات شائع کریں۔
روئٹرز کے مطابق ملکی تمباکو کمپنیاں اپنی مصنوعات پر نئے ضابطوں کے بروقت اطلاق کو یقینی بنانے میں ناکام رہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملکی دارالحکومت نئی دہلی تک میں ابھی تک سگریٹوں کے ایسے پیکٹ فروخت ہو رہے ہیں، جن کے صرف پانچویں حصے پر ہی صحت سے متعلق تنبیہات نظر آتی ہیں۔
اس بارے میں ٹوبیکو انسٹیٹیوٹ آف انڈیا TII کا کہنا ہے کہ بھارتی اداروں نے اپنے پیداواری یونٹوں میں سگریٹوں کی تیاری اس لیے روک دی ہے کہ وہ اپنی پروڈکشن جاری رکھتے ہوئے ہیلتھ وارننگ سے متعلق نئے قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہونا چاہتے۔ ٹی آئی آئی کے مطابق پیداوار کی اس معطلی سے تمباکو کی بھارتی صنعت کو یومیہ قریب 53 ملین ڈالر کا نقصان ہو گا۔
بھارت میں اب تمباکو کی صنعت کے لیے ہیلتھ وارننگ سے متعلق جس نئے قانون کا نفاذ ہو گیا ہے، اس پر پروگرام کے مطابق عمل درآمد گزشتہ برس ایک پارلیمانی کمیٹی نے روک دیا تھا۔ تب اس فیصلے کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ پارلیمانی کمیٹی اس عرصے میں اس امر کا جائزہ لینا چاہتی تھی کہ سگریٹ کے پیکٹوں کے 85 فیصد حصے پر صارفین کے لیے تنبیہی پیغامات کی اشاعت سے ٹوبیکو انڈسٹری کو کس طرح کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تمباکو کی صنعت کے لیے موجودہ ابہام کی وجہ یہ پیش رفت بھی بنی کہ نیا قانون تو ہیلتھ وارننگ کے لیے ہر پیکٹ کا 85 فیصد حصہ مختص کیے جانے کا مطالبہ کرتا ہے لیکن ابھی گزشتہ مہینے ہی متعلقہ پارلیمانی کمیٹی نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ کہہ دیا تھا کہ وارننگ ہر پیکٹ کے 50 فیصد حصے پر شائع کی جانی چاہیے۔ کمیٹی نے اپنے فیصلے کے دفاع میں ٹوبیکو انڈسٹری اور تمباکو کے کاشت کاروں کے مالی مفادات کا حوالہ دیا تھا۔
صحت کے شعبے میں کام کرنے والی متعدد غیر سرکاری بھارتی تنظیموں کا الزام ہے کہ متعلقہ پارلیمانی کمیٹی اپنے فیصلے میں بھارتی ٹوبیکو انڈسٹری کی طرف داری کی مرتکب ہوئی ہے۔
بھارت میں تمباکو مصنوعات کی ملکی منڈی کا سالانہ حجم 10 ارب امریکی ڈالر کے برابر بنتا ہے اور وہاں تمباکو نوشی ہر سال قریب ایک ملین شہریوں کی موت کی وجہ بنتی ہے۔