ہٹلر کی کتاب ’مائن کامپف‘ کی فروخت شروع
8 جنوری 2016جرمن شہر میونخ کے معاصر تاریخ کے ادارے IFZ کی جانب سے شائع کیے جانے والے اس ایڈیشن میں ہٹلر کی تحریر کی ناقدانہ تشریح بھی کی گئی ہے۔ اس طرح امید کی جا رہی ہے کہ لوگ اس نازی رہنما کی کتاب کو بہتر طور پر سمجھ سکیں گے۔
’مائن کامپف‘ کے کاپی رائٹ یا جملہ حقوق کی مدت آڈولف ہٹلر کی موت کے 70 سال بعد 2015ء کے آخر میں ختم ہو گئے تھے۔ میونخ میں قائم معاصر تاریخ کا ادارہ اس کتاب کی اشاعت کے لیے گزشتہ کئی برس سے کام کر رہا تھا۔ اس کتاب کو ’ہٹلر، مائن کامپف: اے کریٹیکل ایڈیشن‘ کا ٹائٹل دیا گیا ہے۔
IFZ کے ڈائریکٹر آندریاز وِرشنگ کے مطابق، ’’یہ ایڈیشن ہٹلر کی طرف سے پھیلائی جانے والی غلط معلومات، کھُلے جھوٹ اور ادھورے سچ کو بے نقاب کرتی ہے۔‘‘
جرمن ریاست باویریا کی وزارت خزانہ اس کتاب کے نئے ایڈیشنوں کی اشاعت روکنے کے لیے اس کے کاپی رائٹس کو استعمال کرتی رہی ہے۔ تاہم یہ کتاب جرمنی میں ممنوع نہیں تھی اور یہ آن لائن کے علاوہ لائبریریوں اور پرانی کتابوں کی دکانوں سے بھی تلاش کی جا سکتی تھی۔
ہٹلر کو نومبر 1923ء میں اُس وقت کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے بعد لانڈزبیرگ کے قلعے میں قید کر دیا گیا تھا، جہاں اُنہوں نے یہ کتاب 1924ء میں تحریر کی تھی۔ اس میں اُنہوں نے اپنے سیاسی نظریات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آئندہ کے منصوبوں کا بھی ایک مفصل خاکہ پیش کیا تھا۔ ایک کٹر سامی دشمن ہوتے ہوئے ہٹلر ’نسلی امتیاز‘ کے اُس نظریے کے حامی تھے، جس نے اُنیسویں صدی کے وسط میں فرانس میں جنم لیا اور بہت سے یورپی ملکوں میں دائیں بازو کے قوم پرست حلقوں میں بے حد مقبول ہو گیا تھا۔ اس نظریے کے تحت ہٹلر جرمن قوم کو ’اعلیٰ ترین آریہ نسل‘ قرار دیتا تھا اور یہودیوں کے بارے میں اُس کا کہنا یہ تھا کہ انہوں نے ’انسانیت کی تاریخ میں ایک تباہ کن کردار ادا کیا ہے‘۔
اس کتاب میں ہٹلر نے دنیا کو فتح کرنے کے منصوبوں کی جانب ابتدائی اشارے بھی دیے تھے۔ شروع شروع میں جمہوری جماعتوں نے اس کتاب کو سنجیدگی سے نہ لیا۔ اس کا پہلا ایڈیشن جولائی 1925ء میں اور دوسرا دسمبر 1926ء میں شائع ہوا۔ 1944ء کے موسمِ خزاں تک یہ کتاب جرمنی میں 12.4 ملین کی تعداد میں شائع ہو چکی تھی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹد پریس کے مطابق نازی جب 1933ء میں اقتدار میں آئے تو یہ کتاب کئی ملین کی تعداد میں چھاپی گئی۔ جبکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد مختلف ممالک میں بھی اس کی اشاعت ہوئی۔ جبکہ جرمن حکام کی طرف سے واضح کر دیا گیا تھا کہ وہ اس وقت تک اس کتاب کا کوئی ایڈیشن شائع کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جب تک اس کے ساتھ تجزیاتی حواشی اور حوال۔ بھی شامل نہیں کیے جاتے۔