ہولناک کہانياں پناہ کے حصول ميں کتنی مددگار
9 جنوری 2018افغان تارک وطن حنيف اللہ ان دنوں جرمنی ميں سياسی پناہ کی تلاش ميں ہیں۔ وہ اپنے فرار کی کہانی کچھ يوں بيان کرتے ہیں کہ وہ ايک دن اپنے ايک دوست کے گھر پر تھے کہ انہیں اپنے ايک بھائی کے نمبر سے يہ پيغام موصول ہوا، ’’گزشتہ رات طالبان نے ہمارے گھر پر حملہ کر کے ہمارے والد اور بھائی کو ہلاک کر ديا۔‘‘ حنيف اللہ کے بقول ان کے بھائی نے انہیں لکھا کہ وہ گھر واپس نہ آئے اور افغانستان سے فرار ہو جائے۔‘‘ جرمنی ميں موجود اس تارک وطن نے مزيد بتايا کہ اپنی جان کو لاحق خطرے کے سبب وہ اپنے والد اور بھائی کی آخری رسومات تک ميں شامل نہ ہو سکا اور دوستوں سے رقم ليتے ہوئے ننگرہار سے فرار ہو گيا۔ حنيف اللہ کئی ممالک سے گزرتا ہوا اور خطرناک راستوں کے ذريعے جرمنی پہنچا۔ انہوں نے اپنی يہ داستان بذريعہ ای ميل ڈی ڈبليو کو بھيجی۔
حنيف اللہ افغانستان ميں انگريزی زبان پڑھاتے تھے اور ان کے بھائی افغان فوج کے اہلکار تھے۔ اس تارک وطن کا دعوی ہے کہ طالبان جنگجوؤں نے اس کے بھائی اور والد سے کہا تھا کہ وہ ان کے ليے لڑيں تو ان کی جان بخش دی جائے گی۔ ليکن وہ طالبان کے ليے لڑنا نہيں چاہتے تھے۔ حنيف اللہ کے بقول اپنے والد اور بھائی کے قتل کے بعد ہی اس نے ملک سے فرار ہونے کا فيصلہ کيا۔
حنيف اللہ نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ جرمنی ميں اس کی پناہ کی درخواست پر کارروائی اب تک اتنی آسان ثابت نہيں ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے شک ہے کہ مجھے ملک بدر کيا جا سکتا ہے۔ اور اگر مجھے واپس افغانستان بھيجا گيا، تو امکاناً مجھے وہاں مار ديا جائے گا۔‘‘
يہ امر اہم ہے کہ جرمنی ميں افغانستان سے پہنچنے والے تمام تارکين وطن کو پناہ فراہم نہيں کی جا سکتی۔ افغان تارکين وطن اکثر فرار کی ايسی ہی ہولناک کہانياں بيان کرتے ہيں، جن کی تصديق کی جانی قريب نا ممکن بات ہے۔