ہمارے سفارت خانے مجرموں کی پناہ گاہیں، سری لنکن وزیر خارجہ
5 مئی 2017جنوبی ایشیا کی اس جزیرہ ریاست کے دارالحکومت کولمبو سے جمعہ پانچ مئی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ملکی وزیر خارجہ منگلا سماراویرا نے آج قومی پارلیمان کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سری لنکا کی گزشتہ حکومت نے بیرونی دنیا میں قائم سری لنکن سفارت خانوں کو ’’قاتلوں، مجرموں اور خانہ جنگی کے دوران شدید نوعیت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد کے لیے محفوظ پناہ گاہوں‘‘ میں بدل دیا تھا۔
سماراویرا نے ارکان پارلیمان کو بتایا، ’’ہمارے بیرون ملک سفارت خانے بہت سے ایسے مجرموں کے محفوظ ٹھکانے بن گئے، جن میں قاتلوں کے علاوہ اندرون ملک انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد کو جگہ دی گئی۔‘‘
منگلا سماراویرا نے کہا، ’’ان افراد کو دراصل سابق ملکی صدر مہیندا راجاپاکسے کے دور اقتدار میں، جس میں تامل خانہ جنگی کے تنازعے کو فوجی طاقت سے حتمی طور پر کچل دیا گیا تھا، کئی طرح کے جرائم کے ارتکاب اور عشروں پرانی خانہ جنگی کے آخری عرصے میں ان کے کردار پر حکومت کی طرف سے نوازا گیا تھا۔‘‘
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ سری لنکن وزیر خارجہ نے ملکی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ راجاپاکسے دور میں کولمبو حکومت نے برازیل میں تعینات کیے گئے ایک نائب سفیر اور جرمنی میں سفارتی عملے کے طور پر تعینات کیے جانے والے دو افراد کو محض اس لیے سرکاری طور پر وہاں بھیجا کہ یہ افراد مشتبہ طور پر جنگی مجرم اور قاتل تھے۔
سماراویرا نے ایوان پارلیمان میں یہ بھی کہا کہ راجاپاکسے حکومت کی طرف سے برازیل میں سری لنکا کے نائب سفیر کے طور پر تعینات کیا جانے والا سفارتی اہلکار نہ صرف 2009ء میں ختم ہونے والی ملکی خانہ جنگی کے اختتامی عرصے میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہوا تھا بلکہ اس پر یہ الزام بھی ہے کہ اس نے سری لنکن سفارت خانے کے ایک دوسرے اہلکار کو قتل بھی کر دیا تھا۔
اے ایف پی کے مطابق راجاپاکسے نے جن دو افراد کو جرمنی میں سری لنکن سفارت کار تعینات کیا، وہ 2009ء ہی میں کیے جانے والے ایک اخباری ایڈیٹر کے قتل کے مرکزی مشتبہ ملزم تھے۔ یہ قتل سری لنکا کے ایک اخبار کے معروف ایڈیٹر لسنتھا وکرماٹنگے کا قتل تھا، جو راجاپاکسے کی پالیسیوں کے وجہ سے ان کے ایک بڑے ناقد تھے۔ ان نام نہاد سری لنکن سفارت کاروں کے بارے میں بھرپور بین الاقوامی تنقید اور کئی حقائق کے منظر عام پر آنے کے بعد سے برلن میں تعینات رہنے والے ان دونوں سفارتی اہلکاروں کو قتل کے الزام میں حراست میں لیا جا چکا ہے۔
سری لنکا کے سابق صدر راجاپاکسے اور ان کے خاندان کے کئی افراد کے خلاف اس وقت اس حوالے سے جامع تحقیقات جاری ہیں کہ وہ 2015ء میں اختتام کو پہنچنے والے راجاپاکسے کے دور صدارت میں وسیع تر فراڈ اور قتل کے کئی واقعات میں ملوث تھے۔