کیوبا: 29 سو قیدیوں کے لیے عام معافی کا اعلان
24 دسمبر 2011جمہوریہ کیوبا کی سرکاری نیوز ایجنسی Prensa Latina کے مطابق ہوانا میں ملک کی سپریم گورننگ کمیٹی نے تین ہزار کے قریب قیدیوں کو عام معافی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیوبا کی نیوز ایجنسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ عام معافی کے زمرے میں لائے گئے افراد میں بعض نے سنگین سیاسی جرائم کا ارتکاب کیا ہوا تھا۔ کیوبا کی اعلیٰ ترین انتظامی کمیٹی کو کونسل آف اسٹیٹ کہا جاتا ہے۔
کونسل نے کل 29 سو قیدیوں کی رہائی کی منظوری دی ہے۔ ان میں ساٹھ برس کی عمر سے زائد قیدیوں کے علاوہ بیمار قیدی بھی رہا کیے جائیں گے۔ اسی طرح وہ خواتین اور نوجوان، جن کا جرائم کے ساتھ گہرا تعلق نہیں ہو گا وہ بھی رہائی کی فہرست میں شامل کیے جائیں گے۔
سرکاری نیوز ایجنسی Prensa Latina نے اس مناسبت سے یہ وضاحت بھی کی کہ وہ قیدی اس عام معافی کے زمرے میں نہیں آتے جن کو جاسوسی کے جرم کے تحت سزا سنائی جا چکی ہے۔ اسی طرح قاتل اور منشیات فروش بھی عام معافی کی سہولت سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ یہ امر اہم ہے کہ سنگین سیاسی جرائم کے تحت سزا پانے والے افراد کو رہائی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
کیوبا کی کونسل آف اسٹیٹ کی جانب سے معافی پانے والوں کے حوالے سے ایک امریکی ایلن فلپ گراس کا کوئی ذکر سامنے نہیں آیا ہے۔ وہ امریکی امداد کے ادارے USAID کا ملازم تھا۔ ایلن گراس امریکی حکومت کا ایک سب کنٹریکٹر تھا اور اس کو سن 2009 میں ہوانا کے ہوائی اڈے پر گرفتار کیا گیا تھا اور اسی برس ایک عدالت نے اسے 15 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اس پر ریاست کے خلاف جرم میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔ اس کے جرائم میں یہ شامل ہے کہ وہ کیوبا کی یہودی آبادی کے لیے کمپیوٹر آلات اور سیٹلائٹ ٹیلی فون لے کر آیا تھا۔ اس سال فروری میں اس پر فرد جرم عائد کی گئی اور بارہ مارچ کو پندرہ سال کی سزا کا حکم سنا دیا گیا۔ کیوبا کی سپریم کورٹ نے اگست کے مہینے میں ایلن فلپ گراس کی اپیل خارج کرتے ہوئے اس کی سزا کی توثیق کر دی تھی۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں کیوبا حکومت کا یہ اقدام پوپ بینیڈکٹ شانزدہم کے مجوزہ دورے کی تیاریوں کا حصہ ہے۔ حکومت نے رہائی کے اس عمل کو پوپ کے دورے کے ساتھ نتھی کرنے کی تردید کی ہے۔ سن 2010 میں کیتھو لک چرچ کے ساتھ ایک ڈیل کے تحت بھی کیوبا حکومت نے ایک سو قیدیوں کو رہا کیا تھا۔ پوپ بینیکٹ شانزدہم کا کیوبا کا دورہ اگلے سال ایسٹر سے قبل رکھا گیا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: حماد کیانی