کیمیائی حملوں کی تحقیقات، اسد حکومت کے تابوت میں آخری کیل؟
23 اگست 2016اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مشترکہ تحقیقاتی میکانزم ( جے آئی ایم) کے تحت ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی، جس کا مقصد سن 2014-15 کے درمیانی عرصے میں بعض شامی دیہات میں مبینہ کیمیائی گیس کے حملوں کی تحقیقات اور ان کے ذمہ داروں کا تعین کرنا تھا۔
سفارت کاروں کے مطابق ان تحققیات میں صدر اسد کی فورسز کی طرف براہ راست اشارے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے برطانوی سفیر میتھیو رائیکرافٹ کا کہنا ہے، ’’میں اس بارے میں مکمل وضاحت کی امید رکھتا ہوں کی شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا ستعمال ہوا ہے اور یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ اس میں کون سے حملے کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔‘‘ اس سفیر کا مزید کہنا تھا، ’’ہم ہر صورت ذمہ داروں کا احتساب یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ جس نے بھی شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے، اس کو جوابدہ بنانا ضروری ہے۔‘‘
فرانسیسی نائب سفیر الیکسس لیمک کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’یہ رپورٹ انتہائی اہم ہے۔ تحقیقات میں جو بھی بات سامنے آئے، کونسل کو اس پر ہر صورت عمل کرنا ہو گا۔‘‘ یہ رپورٹ بدھ کے روز پیش کی جا رہی ہے اور اس کے نتائج پر بحث تیس اگست کو کی جائے گی۔
سکیورٹی کونسل کی ٹیم کی طرف سے شامی صوبوں حما، اِدلِب اور حلب کے سات دیہات میں ہونے والے مبینہ کیمیائی حملوں کی تحقیقات کی گئی ہیں۔ زہریلی گیس کے ان حملوں کے نتیجے میں بچوں اور خواتین سمیت درجنوں افراد ہلاک گئے تھے جبکہ درجنوں کو قے آنے کے ساتھ ساتھ سانس لینے میں شدید دشواری کا سامنا تھا۔ کئی تجزیہ کاروں کے مطابق گزشتہ برس حلب میں اکیس اگست کو ہونے والے حملے کی ذمہ داری جہادی تنظیم داعش پر بھی عائد ہو سکتی ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق زیادہ تر حملوں میں کلورین گیس والے بیرل بموں کا استعمال کیا گیا تھا اور انہیں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے گرایا گیا تھا۔
امریکا، برطانیہ اور فرانس کا اصرار ہے کہ صرف اسد فورسز ان علاقوں میں ہیلی کاپٹروں کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ دمشق حکومت کے حامی روس کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی بھی واضح ثبوت موجود نہیں ہے کہ ان حملوں کے پیچھے حکومتی فورسز کا ہاتھ ہے۔
کلورین گیس والے ہتھیاروں پر پابندی عائد ہے جبکہ سن 2013 میں شام نے بھی اِس معاہدے پر دستخظ کر دیے تھے۔