1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چینی حکام کی طرف سے کریک ڈاؤن کی دھمکی، مظاہروں میں شدت

30 نومبر 2022

چین کے شہر گوانگ ژو میں بڑے پیمانے پر پولیس کی تعیناتی کے باوجود تازہ مظاہروں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ چین کو اس وقت ’تیانمن قتل عام‘ کے بعد سب سے بڑی سول نافرمانی کی تحریک کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/4KIrm
China | Corona Proteste | Polizeipräsenz in Shanghai
تصویر: Hector Retamal/AFP/Getty Images

چین کے جنوبی شہر گوانگ ژو میں فسادات کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان ایک بار پھر جھڑپیں ہوئیں ہیں۔ ان جھڑپوں کی بدھ  کو منظر عام پر آنے والی آن لائن ویڈیوز سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ چین ایک بڑی سول نافرمانی تحریک کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بظاہر یہ ریلیاں چین میں حکام کی طرف سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خلاف سخت لاک ڈاؤن ضوابط کی مخالفت میں نکالی جا رہی ہیں تاہم مظاہرین کا لاک ڈاؤن پالیسیوں پر غصے کا اظہار اب بڑھ کر سیاسی آزادی کے مطالبات میں تبدیل ہو گیا ہے۔

چین کے اعلیٰ سکیورٹی ادارے نے منگل کو دیر گئے ایک انتباہ جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ حکام ''دشمن قوتوں کی دراندازی اور تخریب کاری کی سرگرمیوں‘‘کے خلاف ''کریک ڈاؤن‘‘ سے باز نہیں آئیں گے جبکہ سویلین حکام نے کہا ہے کہ ''غیر قانونی اور مجرمانہ کارروائیاں، جو سماجی نظم و ضبط میں خلل ڈالیں گی، قبول نہیں کی جائیں گی۔‘‘

چین میں اس حالیہ تحریک کو سول نافرمانی کی سب سے بڑی لہر قرار دیا جا رہا ہے، جس سے عوامی جمہوریہ چین  1989ء میں تیانمن سانحے کے بعد دوچار ہے۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز

چین میں بد امنی اور لاک ڈاؤن کے خلاف عوامی مظاہروں سے متعلق ٹویٹر پر شائع ہونے والی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ انسداد فساد کے درجنوں پولیس اہلکار سروں پر ڈھال بنا کر اور اپنی سکیورٹی کے لیے محفوظ وردیوں میں  آگے بڑھ رہے ہیں اور مظاہرین کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ویڈیو میں یہ بھی دیکھا گیا کہ پولیس اہلکاروں پر مظاہرین کچھ پھینک رہے ہیں۔

China | Polizeipräsenz in Shanghai
شنگھائی کی سڑکوں پر پولیس کی گاڑیوں کی قطاریںتصویر: Hector Retamal/AFP/Getty Images

کئی افراد کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر پولیس کی طرف سے نامعلوم مقام کی طرف لے جاتے بھی دیکھا گیا۔ ایک دوسری ویڈیو میں لوگوں کو پولیس پر اشیاء پھینکتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک اور ویڈیو کلپ میں آنسو گیس کا ایک کنستر ایک تنگ گلی میں ایک چھوٹے سے ہجوم کے درمیان گرا اور لوگ دھوئیں سے بھاگتے دکھائی دے رہے تھے۔

اپنی سخت انسداد وباء پالیسیوں کے باوجود چین میں روزانہ COVID-19 کے کیسز کے نئے  ریکارڈ کا اندراج ہو رہا ہے جبکہ اسی دوران  شنگھائی، بیجنگ اور دیگر جگہوں پر جھڑپیں شروع ہو گئیں۔

امریکی حکومت کے تعاون سے چلنے والے 'فریڈم ہاؤس‘ کے زیر انتظام 'چائنا ڈسنٹ مانیٹر‘ کے اندازوں کے مطابق ہفتہ اور پیر کی درمیانی شب 27 ریلیاں نکالی گئیں۔ جبکہ آسٹریلوی  تھنک ٹینک ASPI نے 22 شہروں میں 43 احتجاج ریکارڈ کیے ہیں۔

امریکہ نے چینی ٹیلی کام اور نگرانی والے کیمروں پر پابندی لگادی

چین کے معلومات پر سخت کنٹرول اور الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے مظاہرین کی تعداد کی تصدیق میں مشکل ہو رہی ہے۔

یورپی پارلیمان کے قانون سازوں کی اطلاعات

یورپی پارلیمان کے قانون ساز رائن ہارڈ بیوٹیکوفر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چین کا احتجاج ''تبدیلی‘‘ کے لیے ہے۔

جرمن گرین پارٹی  کے قانون ساز اورچین کے ساتھ تعلقات کے لیے یورپی پارلیمان کے وفد کے چیئرمین رائن ہارڈ بیوٹیکوفر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ چین میں جاری مظاہرے پچھلی چند دہائیوں میں ہونے والے دیگر مظاہروں سے مختلف ہیں۔

China I Corona-Proteste in Guangzhou
شہر گوانگ ژو میں لاک ڈاؤن کے خلاف پُرتشدد مظاہرےتصویر: REUTERS

رائن ہارڈ بیوٹیکوفر نے کہا، ''پہلی بار کئی دہائیوں میں چین نے مختلف پس منظر کے شرکاء کے ساتھ ملک گیر احتجاج دیکھا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،''میرے خیال میں یہ ظالموں اور مظلوموں کے درمیان تعلقات میں ایک تبدیلی ہے۔‘‘

سنکیانگ میں غیر معمولی مظاہروں کے بعد لاک ڈاؤن میں نرمی

یورپی کونسل کے صدر شارلس میشل کے ہمراہ بیوٹیکوفر چین کے دورے پر تھے۔ اس دورے کے دوران انہوں نے کہا، '' ہم اس بات کا بہت دھیان سے مشاہدہ کر رہے ہیں کہ مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کتنا شدید ہے۔‘‘

مظاہرین کا غم و غصہ

نہ ختم ہونے والا  لاک ڈاؤن چینی مظاہرین کے لیے سخت ناراضی کا سبب بنا، جس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ سخت لاک ڈاؤن نے چینی معیشت کا گلا دبا کر رکھ دیا ہے۔ معاشی بدحالی دراصل پُر تشدد مظاہروں کا بنیادی محرک ہے۔ چین میں لازمی کورونا ٹیسٹ اور انسانوں کو الگ تھلگ رکھنے کی پالیسیوں سے لاکھوں باشندے متاثر ہو رہے ہیں۔

ایغوروں کی ’نسل کشی‘ پر اقوام متحدہ میں بحث کی تحریک مسترد

 بین الاقوامی معیار کے اعتبار سے فی الحال چین میں انفیکشنز اور اموات کی تعداد کم ہے لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ لاک ڈاؤن دوبارہ کھلنے سے بڑے پیمانے پر بیماریاں اور اموات ہو سکتی ہیں۔ چین میں ویکسینیشن کی کم شرح کی وجہ سے ممکنہ طور پر ہسپتالوں پر بوجھ بہت زیادہ ہے۔

ک م/ ا ا (اے ایف پی، رائٹرز، ڈی پی اے، اے پی)