کیا سارک تنظیم بھی کبھی یورپی یونین کی طرز پر کام کرسکے گی؟
25 جولائی 2008بیشتر ماہرین کے خیال میں سارک کی ’ناکامی‘ کی سب سے بڑی وجہ جنوبی ایشیا کی دو جوہری طاقتوں، بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی ہے۔ فوجی اور سیاسی اعتبار سے ان دو روایتی حریفوں کے درمیان کشمیر اور سیاچین سمیت کئی دیگر متنازعہ معاملات ہیں جو خطے کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔
اس مرتبہ سارک سربراہ کانفرنس سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں ہورہی ہے۔ یہ سربراہ کانفرنس ترتیب کے اعتبار سے پندرہویں ہے۔ اس کانفرنس کا انعقاد رواں ماہ تیس اور اکتیس کو ہونا طے ہے۔ کانفرنس کے ایجنڈے کو حتمی شکل دینے کی مناسبت سے وزراتی اجلاس کا آغاز ستائیس جولائی کو ہورہا ہے۔
سارک کا تصور آیا کہاں سے؟
سن انیس سو ستر کی دہائی کے اواخر میں اس وقت کے بنگلہ دیشی صدر ضیاء الرحمٰن نے جنوبی ایشیائی ممالک کے لئے ایک تجارتی بلاک کے قیام کی تجویز پیش کی ۔ اس کے بعد انیس سو اسی میں ایک مرتبہ پھر جنوبی ایشیا میں علاقائی تعاون کا منصوبہ زیر بحث آیا۔ سن انیس سو اکیاسی میں سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں کمیٹی کے ارکان پہلی مرتبہ ملے اور علاقائی تعاون کے لئے پانچ اہم ایریاز کی نشاندہی کی۔
براعظم ایشیاء کا علاقہ جس میں پاکستان، بھارت، سری لنکا، افغانستان، بنگلہ دیش، مالدیپ، نیپال اور بھوٹان ہیں، وہ جنوبی ایشیا کہلاتا ہے۔ سایسی انتشار، معاشی عدم استحکام، اور ملکوں کے اندر امن وسلامتی کی بوجھل فضا اور بے اطمنانی ایسے نشانات ہیں جو اِس علاقے کے باسیّوں کی مجموعی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر تنازعہ، آج کل پاکستان کے اندر سیاسی اور عدلیہ کے بحران، اور اس کے علاوہ سری لنکا میں اندرونی خلفشار، تامل باغیوں کے ساتھ جاری رسہ کشی، افغانستان میں غیر ملکی افواج کی تعیناتی، اور سیاسی بے چینی کے شکار ملک بنگلہ دیش کے ابتر حالات، یہ سب چیزیں سارک تنظیم کی کامیابی کے راستے میں بڑے کانٹے ہیں۔
اِس خطے میں ڈیڑھ ارب نفوس بستےہیں۔ اِن انسانوں کو بہتر مستقبل دینے کے لئے دسمبر سن اُنیس سو پچاسی میں ایک تنظیم کا خواب دیکھا گیا اور اُس کو عملی شکل دیتے ہوئے سارک کا نام تجویز کیا گیا۔ اس تنظیم کا ہیڈ کوارٹر کوہِ ہمالیہ کے دامن میں واقع ریاست نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں ہے۔
سارک میں جنوبی ایشیا کے آٹھ ممبر ممالک کے علاوہ کچھ اور ملکوں اور تنظیموں کو مبصرکا درجہ دیا گیا ہے۔ مبصر ملکوں میں عوامی جمہوریہ چین، امریکہ، جنوبی کوریا، جاپان اور ایران شامل ہیں۔ یورپی یونین کو مبصر تنظیم کا درجہ حاصل ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان سن دو ہزار چار سے جاری جامع مذاکراتی عمل کے بعد اب یہ امکانات پیدا ہوگئے ہیں کہ سارک تنظیم بھی علاقائی تعاون کے حوالے سے آنے والے ماہ و سال میں مزید متحرک ہو کر فلاح و بہبود کے نئے کام کرسکے گی۔