1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا بھارت سری لنکا کے معاشی مسائل حل کرنے کی سکت رکھتا ہے؟

20 ستمبر 2022

بھارت نے طویل المدتی سرمایہ کاری کے ذ‌ریعے سری لنکا کی مدد جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ سری لنکا کو بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے اور رواں برس بھارت اس ملک کو تقریبا چار ارب ڈالر کی مالی امداد فراہم کر چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/4H71r
Sri Lanka | Unterstützer des Präsidenten Ranil Wickremesinghe
سری لنکا کو بدترین معاشی بحران کا سامنا ہےتصویر: Eranga Jayawardena/AP/picture alliance

کولمبو میں واقع بھارتی سفارت خانے کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق بھارت سری لنکا کے بنیادی معاشی شعبوں میں ہر ممکن طریقے سے سر مایہ کاری کرے گا تاکہ یہ ملک جلد اقتصادی بحران سے نکل سکے۔ تاہم اس بیان میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ یہ مزید مالی امداد طویل المدتی منصوبوں کے لیے ہی فراہم کی جائے گی۔

 بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت سری لنکا میں تقریباً 3.5 بلین ڈالر کے ترقیاتی منصوبے جاری رکھے ہوئے ہے۔  رواں ماہ کے اوائل میں سری لنکن صدر نے متعلقہ حکام سے کہا تھا کہ بھارت کے حمایت یافتہ منصوبوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا تھا کہ اس حوالے سے بھارت کو کن مسائل یا رکاوٹوں کا سامنا ہے؟

صدر رانیل وکرما سنگھے نے یہ بھی کہا تھا کہ سری لنکا بھارت کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کو ایک جامع اقتصادی اور تکنیکی شراکت داری میں بدل دے گا۔

بھارتی اور امریکی خدشات کے باوجود چینی ’جاسوس جہاز‘ سری لنکا میں

تاہم ان تمام تر اعلانات کے باوجود گزشتہ ہفتے نیوز ایجنسی روئٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ نئی دہلی حکومت سری لنکا کو کوئی تازہ مالی امداد فراہم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ یہ جزیرہ ریاست عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدہ کر چکی ہے اور اس کی معیشت مستحکم ہونا شروع ہو چکی ہے۔

Infografik Schulden Sri Lankas nach Hauptkreditgebern EN
نیوز ایجنسی روئٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ نئی دہلی حکومت سری لنکا کو کوئی تازہ مالی امداد فراہم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی

بھارت کی سری لنکا میں دلچسپی کیوں؟

بحر ہند میں بھارت کے جنوبی سرے کے قریب واقع آنسو کی شکل کا جزیرہ سری لنکا نئی دہلی اور بیجنگ کے درمیان اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے جاری تگ و دو کا مرکز بنا ہوا ہے۔ بیجنگ پہلے ہی سری لنکا میں بندرگاہوں، پاور اسٹیشنوں اور ہائی ویز کی تعمیر کر چکا ہے، جو ایشیا بھر میں اس کے ٹریڈ اینڈ ٹرانسپورٹ منصوبے کا حصہ ہیں۔

سری لنکا کی ہمبنٹوٹا بندرگاہ 2017ء سے چینیوں کے زیر انتظام ہے۔ بیجنگ حکومت نے اسے 1.12 بلین ڈالر کے عوض 99 سال کے لیے لیز پر لے رکھا ہے۔ نئی دہلی حکومت کو شک ہے کہ اس طرح چین بھارت کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارت اپنے ہمسایہ ممالک کو مکمل طور پر چین کے ہاتھ میں نہیں جانے دینا چاہتا۔

نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں بھارت چین تعلقات کے ماہر سری کانتھ کونداپالی کے مطابق، ''اس وقت وہاں چین کو فوقیت حاصل ہے۔‘‘ اور بھارت چین کی یہی فوقیت ختم کرنا چاہتا ہے۔

 تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت اس پوزیشن میں بھی نہیں ہے کہ وہ سری لنکا کو مزید قرض فراہم کر سکے۔ حال ہی میں رانیل وکرما سنگھے نے ملکی پارلیمان کو بتایا تھا، ''ہم نے کریڈٹ لائن کے تحت بھارت سے چار ارب امریکی ڈالر کا قرض لیا ہے۔ ہم نے بھارت سے مزید قرض دینے کی درخواست کی ہے لیکن بھارت بھی اس طرح مسلسل ہمارا ساتھ نہیں دے پائے گا۔ ان کی طرف سے امداد فراہم کرنے کی بھی ایک حد ہے۔ دوسری طرف ہمارے پاس بھی ان قرضوں کی واپسی کا منصوبہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ پیسے خیرات میں نہیں ملے ہیں۔‘‘

سیاسی مبصرین کے مطابق سری لنکا اور مالدیپ جیسے ایشیائی ممالک چینی ''قرضوں کے شکنجے‘‘ میں جکڑے ہوئے ہیں اور اب ان سے نکلنا آسان نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق کوشش کے باوجود بھی ایسا نہیں لگتا کہ بھارت سری لنکا کو قرضوں کے چنگل سے نکال یا پھر اس کے معاشی مسائل حل کر پائے گا۔

سری لنکا، چائے کی صنعت میں اُبلتا طوفان

ا ا / ر ب (روئٹرز، اے ایف پی)