کیا بلاول پیپلزپارٹی کی کھوئی ہوئی مقبولیت واپس لا سکیں گے؟
11 جنوری 2016سندھ کے مختلف علاقوں کے دوروں کے بعد اب بلاول بھٹو زرداری نے پنجاب کا تین روز دورہ مکمل کیا ہے۔ اس دورے کے دوران انہوں نے پارٹی اجلاسوں کی صدارت کی، لاہور ہائی کورٹ بار سے خطاب کیا اور اجتماعی شادیوں کے حوالے سے ہونے والے ایک فنکشن کے علاوہ وہ بہت سی تقاریب میں شریک ہوئے۔
کیا پارٹی کو عوام اور کارکنوں میں دوبارہ مقبول بنانے کی بلاول بھٹو کی یہ کوششیں کامیاب ہو سکیں گی؟ پاکستان کے بیشتر تجزیہ نگار اس سوال کا جواب ہاں میں دینے سے گریز کر رہے ہیں۔
پاکستان کے ایک سینئیر تجزیہ کار اور انگریزی اخبار دی ڈیلی نیشن کے ایڈیٹر سلیم بخاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا اس وقت برا حال ہو چکا ہے، خاص طور پر پنجاب میں تو اسے بحرانی کیفیت کا سامنا ہے، ’’حالیہ ضمنی انتخابات، کنٹونمنٹ کے انتخابات اور بلدیاتی انتخابات میں بھی یہاں پیپلز پارٹی کو شدید ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ درینہ کارکن مایوسی کا شکار ہیں اور کئی پارٹی رہنما دوسری جماعتوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت کو دوبارہ بحال کرنا آسان نہیں ہے۔‘‘
ان کے بقول، ’’بلاول بھٹو کو خود ان کے والد آصف زرداری کچھ عرصہ پہلے سیاسی طور پر "امیچور" قرار دے چکے ہیں۔ آصف زرداری نے رجسٹرڈ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ پارٹی کے اندر وہ اہم اختیارات بھی بلاول بھٹو کو دینے پر تیار نہیں ہیں۔ وسطی اور جنوبی پنجاب میں پارٹی صدور کا فیصلہ طویل عرصے سے التوا کا شکار چلا آرہا ہے، بلاول اس ضمن میں آزادانہ فیصلے کرنے سے محروم دکھائی دیتے ہیں۔ مقامی قیادت نے جیالوں کو بہت مایوس کیا ہے۔ ان حالات میں بلاول بھٹو کا پارٹی کو ازسرنو کھڑے کر دینا ممکن نہیں نظر آ رہا۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہکیا کھمبوں پر مہریں لگانے والے جیالے شہید بے نظیر بھٹو کے بیٹے کو دیکھ کر مقامی قیادت کی غلطیاں نظر انداز نہیں کر سکیں گے؟ سلیم بخاری کا کہنا تھا، ’’ جیالوں کی وہ محبت جو ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو ملی تھی، اسے پانے کے لیے بلاول کو بہت محنت کرنا ہوگی، اس میں ان کی طرح کا کرزمہ نہیں ہے۔ لیڈر پیدا ہوا کرتے ہیں بنائے نہیں جا سکتے، لکھی ہوئی تقریر محدود حد تک ہی لوگوں کو متاثر کرنے کا باعث بنتی ہے۔ میں پیپلز پارٹی کے مستقبل سے مایوس تو نہیں ہوں لیکن ابھی بہت وقت لگے گا۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کی ایک ناراض رہنما ناہید خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بلاول بھٹو کا سیاسی عمل میں حصہ لینا اور دورے کرنا خوش آئند تو ہے لیکن جب تک وہ دو کشتیوں میں سوار رہیں گے، پارٹی بحال نہیں ہو سکے گی، ’’اسے اپنے نانا یا اپنے والد کے نظریات اور طرز سیاست میں سے کسی ایک شخصیت کی کھل کر پیروی کرنا ہوگی۔ اسے عوام سے رابطہ بڑھانا، پارٹی کارکنوں کا خیال کرنا اور مزدوروں اور ہاریوں سے رابطہ رکھنا ہو گا۔ بلاول بھٹو زرداری اپنے والد کے اعمال کا بوجھ اٹھا کر یہ کام نہیں کر سکیں گے۔‘‘
ناہید خان کے بقول بھٹو خاندان پاکستانی سیاست کو محلوں اور ڈرائنگ رومز سے نکال کر گلیوں اور محلوں میں لے کر آیا۔ اب پارٹی کی سیاست کو پھر ڈرائنگ رومز میں پہنچا دیا گیا ہے۔ بلاول بھٹو کو اپنی شناخت نانا اور ماں کے نظریات کو بنانا ہو گا۔
ایک صحافی جاوید فاروقی کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت حاصل تو کر سکتی ہے لیکن اس کے لیے بہت عرصہ درکار ہوگا اور یہ کام مختصر دورانیے میں نہیں ہو سکے گا۔
پیپلز پارٹی کے ایک کارکن اللہ دتہ نے بتایا کہ وہ بلاول بھٹو کو دیکھنا چاہتا ہے لیکن وہ اندرون شہر سے کوئی تیس کلومیٹر دور بلاول ہاؤس تک پہنچنے کی استطاعت نہیں رکھتا، ’’ اگر میں کسی طرح اس جدید آبادی میں پہنچ بھی جاؤں تو قلعہ نما بلاول ہاوس پر تعینات سکیورٹی گارڈز مجھے اندر نہیں گھسنے دیں گے، یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔‘‘