کھٹمنڈو میں سانس لینا دشوار
نیپال کا دارالحکومت کھٹمنڈو دنیا میں تیزی سے ترقی کرنے والا شہر ہی نہیں بلکہ اس کا شمار آلودہ ترین شہروں میں بھی ہوتا ہے۔ اس شہر کے باسی صحت کے شدید مسائل سے دوچار ہیں۔
تب اور آج
کھٹمنڈو کی یہ تصویر 1967ء کی ہے اور اس تصویر میں واضح طور پر درختوں اور سبزہ زاروں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم اب درخت اور سبزہ زار غائب ہو چکے ہیں۔ اسی طرح پہاڑ بھی آلودگی کی وجہ سے دکھائی نہیں دے رہے۔ 2018ء میں نیپال فضائی طور پر آلودہ شہروں کی فہرست میں 180 ویں نمبر پر تھا۔
گاڑیوں کا شہر
نیپالی دارالحکومت کھٹمنڈو پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہے، جس کی وجہ سے یہاں پر آلودہ ہوا باہر نکل نہیں پاتی۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی وجہ سے اڑنے والی دھول اس آلودگی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ شہر کے اطراف میں اینٹوں کے بھٹے بھی آب و ہوا کو خراب کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم شہر کے ٹریفک کا قصور سب سے زیادہ ہے۔
پیدل چلنے والے
کھٹمنڈو میں چودہ فیصد سالانہ کے حساب سے گاڑیاں بڑھ رہی ہیں، جو آبادی میں اضافے سے تین گنا تیز ہے۔ گاڑیوں میں اضافے کی وجہ سے پیدل چلنے والوں کو شدید مشکلات اور طبی حوالےسے خطرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گاڑیوں کا شور سماعت اور فشار خون پر اثر انداز ہو رہا ہے جبکہ آلودگی سے آنکھوں سے پانی آنا اور سانس لینے میں دشواری جیسے مسائل بڑھ رہے ہیں۔
زہر آلود ہوا
فضائی آلودگی شہر کے باسیوں کی صحت پر بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ تریسٹھ سالہ نرائن دہل کے مطابق، ’’ میری ناک خشک رہتی ہے، مجھے سر درد کی بھی شکایت ہے اور میرے پھیپڑے بھی صحیح کام نہیں کر رہے۔ اسی لیے میں دھول مٹی سے بچنے کے لیے ماسک پہنتا ہوں۔‘‘
محدود تحفظ
کھٹمنڈو میں دو دن بعد ہی چہرے کے ماسک پر دھول مٹی کے نشانات واضح ہو جاتے ہیں۔ یہ ماسک انتہائی باریک ذرات کے خلاف بہت زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوتے اور اس طرح یہ چھوٹے ذرات پھیپڑوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس طرح دل اور نظام تنفس کے مسائل کے ساتھ ساتھ سرطان کا خطرہ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔
کوئی فکر نہیں
نیپالی دارالحکومت کھٹمنڈو میں ماسک استعمال نہ کرنے والے افراد کی کمی نہیں۔ یہ نوجوان شہر کی ایک مصروف ترین شاہراہ پر بغیر کسی ماسک کے کوٹن کینڈی فروخت کر رہا ہے۔
آبادی میں اضافہ
نصف صدی قبل تک نیپالی دارالحکومت میں چند ہزار لوگ آباد تھے۔ آج یہاں کی آبادی تین ملین تک ہو چکی ہے۔ بغیر کسی منظم منصوبہ بندی کے کھٹمنڈو کی جانب ہجرت قابو سے باہر ہو چکی ہے۔ کنتی پاتھ کی طرح کے شہر کے اہم ترین علاقے ٹریفک کے دھوئیں سے شدید آلودہ ہو چکے ہیں۔
پرانی یادیں
انتیس سالہ بدھ بھکشو پاسنگ تھنگلو کہتے ہیں،’’ میں بچپن سے کھٹمنڈو آ رہا ہوں، اس وقت آب و ہوا اتنی بری نہیں تھی۔ میں جب 2015ء میں یہاں دوبارہ آیا توسانس لینا دشوار تھا۔ زلزلے نے معاملات کو مزید دشوار کر دیا کیونکہ اب جاری تعمیرات کی وجہ سے دھول مٹی میں اضافہ ہی ہوا ہے۔‘‘ اپریل 2015ء کے زلزلے بعد میں کھٹمنڈو میں نو ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
آلودگی اور مورتیاں
یہاں تک کہ مورتیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ کھٹمنڈو کے ایک کاریگر نے دھول سے محفوظ رکھنے کی خاطر تارا دیوی کی پیتل سے بنی ہوئی مورتی کے گرد کاغذ لپیٹا ہوا ہے۔ کاریگر کا خیال ہے کہ آلودگی مورتی کے چہرے کے نقوش کو خراب کر سکتی ہے۔