کيلے جنگل کو ختم کرنے کا کام جاری
1 مارچ 2016فرانسيسی حکام نے ’کيلے جنگل‘ کے نام سے جانے جانے والے مہاجر کيمپ کے جنوبی حصے کو ختم کرنے کا کام آج منگل کو بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ پير انتيس فروری کو اس عمل کے آغاز پر مشتعل تارکين وطن اور پوليس اہلکاروں کے مابين تصادم کی رپورٹيں موصول ہوئيں۔ لوہے کی راڈوں اور پتھروں سے ليس تقريباً ڈيڑھ سو پناہ گزينوں نے برہمی ميں برطانيہ کی جانب گامزن موٹر گاڑيوں پر دھاوا بول ديا۔ مشتعل مہاجرين کا کہنا ہے کہ وہ رہائش کے ليے بہتر مقامات پر منتقلی نہيں چاہتے کيونکہ کيلے سے دور جانا، ان کے برطانيہ پہنچنے کے خواب کو مزيد مشکل بنا دے گا۔
يہ امر اہم ہے کہ فرانس کا بندرگاہی شہر کيلے ايسے ہزاروں پناہ گزينوں کا گڑھ بنا ہوا ہے، جو سياسی پناہ کے ليے برطانيہ جانے کے خواہشمند ہيں۔ يہ معاملہ لندن اور پيرس کے مابين بھی ايک سياسی تنازعے کی صورت اختيار کر چکا ہے۔
مقامی انتظاميہ کے مطابق کيلے کے اس بدنام زمانہ ’جنگل‘ کہلانے والے کيمپ ميں تقريباً 3,700 تارکين وطن مقيم ہيں اور کيمپ کے جنوبی حصے کو ختم کرنے سے آٹھ سو تا ايک ہزار مہاجرين متاثر ہوں گے۔ اس کے برعکس امدادی تنظيموں کا دعویٰ ہے کہ ايک حاليہ مطالعے کے نتائج سے ثابت ہوا ہے کہ ’کيلے جنگل‘ کے صرف جنوبی حصے ہی ميں لگ بھگ ساڑھے تين ہزار پناہ گزين مقيم ہيں، جن ميں قريب تين سو تنہا بچے بھی شامل ہيں۔
اس ہفتے کے آغاز پر جب کيمپ کے ايک حصے کو ختم کرنے کا کام شروع کيا گيا، تو متاثرہ پناہ گزينوں کو اسی مقام سے قريب کنٹينروں ميں جگہ فراہم کی گئی، جن ميں کمرے گرم رکھنے کا بندوبست بھی ہے۔ اس کے علاوہ متاثرين کو فرانس کے مختلف مقامات پر موجود ايک سو ’رسيپشن سينٹرز‘ ميں رہائش کی پيشکش بھی کی گئی ہے۔ تاہم سب کے باوجود يہ مہاجرين برطانيہ جانے کی اميد کا دامن نہيں چھوڑنا چاہتے۔
اس ہفتے جمعرات کے دن فرانسيسی صدر فرانسوا اولانڈ اور برطانوی وزير اعظم ڈيوڈ کيمرون کی ملاقات ہونے والی ہے۔ لندن حکام نے پيرس پر خاصا دباؤ ڈال رکھا ہے کہ وہ غير قانونی مہاجرين کی برطانيہ ہجرت کو روکے۔