کوئٹہ میں بلوچ رہنما کا قتل
14 جولائی 2010کوئٹہ پولیس کے ایک اعلی افسر حامد شکیل نے بتایا کہ موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم مسلح افراد نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل اورسابق سینیٹر حبیب جالب پر اس وقت فائرنگ کی، جب وہ اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے جا رہے تھے۔ فائرنگ کے نتیجے وہ شدید زخمی ہو گئے۔ انہیں سول اسپتال کوئٹہ منتقل کیا گیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔
اس واقعے کے بعد بی این پی کے ہزاروں کارکن سول ہسپتال کے باہر جمع ہوگئے اور نعرے باز ی کرتے ہوئے سڑکیں بلاک کر دیں۔ بلوچ رہنما حکومت اور سیکیورٹی فورسز پر سینکٹروں بلوچ قوم پرستوں کو قتل اور اغوا کرنے کا الزام عائد کرتی ہے۔ مرحوم حبیب جالب کا تعلق بھی ان افراد میں سے تھا، جو قوم پرستوں کی بازیابی کی بات کرتے تھے۔ مرحوم پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے۔
کوئٹہ پولیس کے مطابق حبیب جالب ہسپتال کے راستے میں ہی دم توڑ گئے تھے۔ ملزمان فائرنگ کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ۔ پولیس ذرائع نے بتایا کہ واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں اور فی الحال ملزمان کی شناخت کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
گزشتہ برسوں کے دوران صوبہ بلوچستان میں عسکریت پسندی اور پر تشدد واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ساتھ ہی ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات بھی بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ 2004ء سے بلوچ باغیوں کی جانب سے وسیع خود مختاری اور قدرتی گیس اور دیگر معدنیات سے حاصل ہونے والے منافع میں اضافے کے مطالبے کے بعد سےسینکڑوں افراد کو قتل کیا جا چکا ہے۔ ساتھ ہی گزشتہ برسوں کے دوران صوبے میں مذہبی انتہاپسندی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
.
اطلاعات کے مطابق حبیب جالب کے قتل کے خلاف صوبے کے کئی شہروں میں حالات کشیدہ ہیں اور انتظامیہ نے کوئٹہ میں قائم بلوچستان یونیورسٹی کو بھی دو دنوں کے لئے بند کر دیا ہے۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چوکس کر دیا گیا ہے۔
رپورٹ : عدنان اسحاق
ادارت : افسر اعوان