1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرتار پور، بابری مسجد اور افضل گرو

10 نومبر 2019

بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین ہندوؤں کے حوالے کرنے کا حکم ٹھیک اسی دن دیا جب پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی سکھوں کی دربار صاحب تک رسائی کے لیے کرتار پور کوریڈور کا افتتاح کیا۔ افسر اعوان کا بلاگ۔

https://p.dw.com/p/3SmXP
افسر اعوانتصویر: privat

ہفتہ نو نومبر 2019ء کو جنوبی ایشیا میں دو ایسے واقعات ہوئے ہیں جو بلا شک و شبہ اس خطے کی تاریخ پر دور رس اثرات مرتب کریں گے۔ پہلا واقعہ بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے بابری مسجد کے حوالے فیصلہ تھا جو مغل بادشاہ ظہیرالدین محمد بابر کے نام سے منسوب ہے اور جسے 1528 میں بابر کے ایک کمانڈر میر باقی نے ایودھیا میں تعمیر کرایا تھا۔ اس مسجد کی تعمیر کے بعد سے بہت سے ہندوؤں کا دعویٰ رہا ہے کہ یہ مسجد ان کے بھگوان رام کے پہلے سے قائم ایک مندر کو توڑ کر اس کی جگہ تعمیر کروائی گئی تھی۔ اور یہ کہ اسی جگہ پر ان کے بھگوان رام کی پیدائش ہوئی تھی۔ بھارتی سپریم کورٹ نے صدیوں پرانے اس قضیے کا فیصلہ یہ سنایا کہ بابری مسجد کی زمین ہندوؤں کے حوالے کر دی جائے تاکہ وہ وہاں رام مندر تعمیر کر سکیں جبکہ مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی اتنی ہی زمین فراہم کی جائے۔

دوسرا اہم واقعہ پاکستانی وزیراعظم کی طرف سے کرتارپور راہداری کا افتتاح تھا۔ اس طرح بھارت میں آباد کروڑو سکھ اپنے مذہب کے بانی بابا گرو نانک کے قائم کردہ گوردوارے کی زیارت کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ بابا گرو نانک نے اپنی زندگی کے آخری سترہ برس اسی مقام پر گزارے تھے اس لیے اس گورودوارہ دربار صاحب کے لیے ان کے پیروکاروں عقیدت اور محبت انتہائی زیادہ ہے۔

بھارتی پنجاب اور دنیا بھر میں سکھوں کی طرف سے کرتارپور کوریڈور کھولنے کے فیصلے پر پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی سے منسلک سیاستدان اور سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کو بہت زیادہ سراہا جا رہا ہے۔ بعض مبصرین کرتارپور کوریڈور کو پاکستان کی ایسی سفارتی کامیابی قرار دے رہے ہیں جو مستقبل میں بھارت کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔

اس افتتاح سے چند ہی گھنٹے قبل بھارتی سپریم کورٹ کے بابری مسجد سے متعلق فیصلے سے بھارت کی حکمران ہندوقوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے قوم پرست ہندووں کی حمایت میں یقینا اضافہ ہوا ہے۔  کیونکہ 1980ءکے عشرے میں بی جے پی کے ہی سینئر رہنما لال کرشن ایڈوانی کی قیادت میں بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر تعمیر کرنے کی تحریک شروع ہوئی اور اسی کے نتیجے میں چھ دسمبر 1992کو ہندووں کے ایک ہجوم نے بابری مسجد کو منہدم کر کے وہاں رام کی مورتی نصب کر دی تھی۔ اس وقت کے بعد سے یہ معاملہ عدالت میں موجود تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے قریب تین دہائیوں پرانے اس مقدمے کی مسلسل چالیس روز تک جاری رہنے والی کارروائی گزشتہ ماہ ہی مکمل کی تھی۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ اس کا فیصلہ بھارتی سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس راجن گوگوئی کی ریٹائرمنٹ سے ایک آدھ دن ہی قبل سنایا جائے گا۔ وہ 16 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ فیصلہ 15 نومبر کے اریب قریب اس وجہ سے بھی متوقع تھا کیونکہ 10 نومبر کو بھارت اور جنوبی ایشیا میں 12 ربیع الاول ہے جسے زیادہ تر مسلمان پیغمبر اسلام کی پیدائش کے دن کے طور پر مناتے ہیں اور خصوصی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ ایسے موقع پر ایک ایسے فیصلے کی توقع کم ہی تھی جو بھارتی مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کی وجہ بنے اور جس پر کوئی سخت ردعمل آسکتا ہو۔

آٹھ نومبر کی شام تک بھارتی میڈیا یا عوام میں سے کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ عدالت عالیہ نو نومبر کو اس کا فیصلہ سنائے گی مگر مقامی وقت کے مطابق رات 10 بجے کے قریب سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر یہ اعلان جاری کیا گیا کہ فیصلہ ہفتہ نو نومبر کی صبح پر سنایا جائے گا۔ یعنی کرتارپور کوریڈور کے باقاعدہ افتتاح سے محض چند گھنٹے قبل۔

کسی بھی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی طرح بھارتی سپریم کورٹ بھی ماضی میں کئی اہم اور تاریخی فیصلے دے چکی ہے اور انہی میں سے ایک کشمیری نوجوان افضل گورو کو سنائی جانے والی سزائے موت کا فیصلہ بھی تھا جو اسے بھارتی پارلیمان پر حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں سنائی گئی۔ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے میں اعتراف کیا گیا تھا کہ اس مقدمے میں پیش کیے گئے شواہد مجرمانہ سازش کو ثابت کرنے کے لیے ناکافی تھے مگر فیصلے میں تحریر تھا، ''اس واقعے نے، جو بھاری جانی نقصان کا باعث بنا، پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا اور معاشرے کے اجتماعی ضمیر کو تبھی مطمئن کیا جا سکتا ہے جب مجرم کو سزائے موت دی جائے۔‘‘

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔