کانگریس جوہری ڈیل کا راستہ مت روکے، امریکی صدر کا انتباہ
5 اگست 2015امریکی صدر باراک اوباما نے واشنگٹن میں قائم امریکن یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین طے پانے والی جوہری ڈیل کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روک دیا گیا ہے۔
اوباما نے زور دیا کہ کانگریس کو اس ڈیل کو منظور کر لینا چاہیے، ورنہ دوسری صورت میں نہ صرف امریکا کی بین الاقوامی ساکھ متاثر ہو گی بلکہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش تیز کر دے گا۔
امریکی صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ چودہ جولائی کو طے پانے والی اس ڈیل کو تمام دنیا کی حمایت حاصل ہے لیکن صرف اسرائیل کو اس سے تحفظات لاحق ہیں۔ انہوں نے اصرار کیا کہ حقیقت میں یہ ڈیل نہ صرف مشرق وسطیٰ میں قیام امن کا باعث بن سکتی ہے بلکہ اس سے عالمی سطح پر استحکام پیدا ہوگا۔
صدر اوباما ان دنوں وائٹ ہاؤس میں مہم جاری رکھے ہوئے ہیں کہ کانگریس اس ڈیل کو منظور کر لے۔ سترہ ستمبر تک کانگریس نے اس ڈیل کی حتمی منظوری دینا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے وائٹ ہاؤس کے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر اوباما امریکا میں سیاسی حلقوں کے علاوہ یہودی رہنماؤں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے خصوصی ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ کانگریس اس ڈیل کی منظوری دے دے۔
بدھ کے دن امریکی صدر نے امریکن یونیورسٹی میں اپنے خطاب میں اعتراف کیا کہ اس ڈیل کی وجہ سے ایران کو پہنچنے والے مالی فائدے سے وہ علاقائی سطح پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کر سکتا ہے لیکن یہ بہتر ہے کہ اسے جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روک دیا جائے۔
امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ایران پر عائد پابندیوں کو اٹھانے کے باوجود بھی پرکھا جائے گا کہ کہیں وہ کسی دہشت گرد گروہ کو مالی فائدہ تو نہیں پہنچا رہا۔ بتایا گیا ہے کہ اس ڈیل کی خلاف ورزی کی صورت میں تہران پر دوبارہ پابندیاں عائد کی جا سکیں گی۔
اوباما نے کہا کہ اگر ایران نے اس ڈیل کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کی تو اسے پکڑ لیا جائے گا۔ امریکی صدر کے مطابق ایران کے لیے آسان نہیں ہے کہ اس ڈیل کے بعد بھی وہ اپنے جوہری عزائم جاری رکھے۔
صدر اوباما نے مزید کہا کہ ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے سفارتکاری کا راستہ جنگ سے بہتر ہے۔ اوباما نے خبردار کیا کہ اگر کانگریس نے اس ڈیل کی راہ میں رکاوٹ ڈالی تو واشنگٹن کو تہران کے متنازعہ جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے لیے عسکری راستہ اختیار کرنا پڑ سکتا ہے۔