1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستمیانمار

میانمار:جمہورت نواز لیڈر ملک کے لیےجان کی بازی لگانے کو تیار

1 دسمبر 2022

جمعرات کو نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں ’نیشنل یونٹی گورنمنٹ‘ این یو جی کے سربراہ دعا لاشی لا نے اپنے اتحادیوں سے فوجی امداد فراہم کرنے کی اپیل کی۔

https://p.dw.com/p/4KLiY
Myanmar | Duwa Lashi La
تصویر: REUTERS

 جمعرات کو نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں 'نیشنل یونٹی گورنمنٹ‘ این یو جی کے سربراہ دعا لاشی لا نے اپنے اتحادیوں سے فوجی امداد فراہم کرنے کی اپیل کی۔

دعا لاشی نے جمعرات کو میانمار کے کسی نامعلوم مقام سے روئٹرز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا، ''یہ اموات ہماری جدوجہد کی قیمت ہیں۔ یہ قیمت ہمیں ہر حال میں ادا کرنی ہے۔‘‘ دعا لاشی نے میانمار میں ایک متوازی عوامی حکومت قائم کر رکھی ہے۔

دعا لاشی لا کون ہیں؟

دعا لاشی لا، نیشنل یونٹی گورنمنٹ کے قائم مقام صدر ہیں۔ یہ حکومت (این یو جی) سابقہ سول انتظامیہ کے بچے کھچے افراد پر مشتمل ہے۔ دعا لاشی لا پیشے کے حساب سے ایک وکیل ہیں اور ماضی میں ایک استاد بھی رہ چکے ہیں۔ ان کی عمر 70 سال سے زیادہ ہے اور وہ میانمار میں ہنگاموں اور شورش کے سبب شمالی میانمار کی ریاست کاچین میں اپنے گھر سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ فرار ہوئے۔ میانمار کی فوجی جنتا نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو دہشت گرد قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی عوام سے یہ بھی کہا کہ کوئی ان سے رابط نہ کرے۔ تاہم دوسری جانب دعا لاشی اور ان کے ساتھیوں کی متوازی سویلین حکومت کو وسیع عوامی حمایت بھی حاصل ہے۔ ان کے مسلح کارکن ملک بھر میں 'پیپلز ڈیفنس فورسز‘ کے نام سے مشہور  ہیں۔

 

Philippinen |  Myanmar Demokratie Protest
میانمار میں جمہوریت نواز عناصر فوجی بغاوت کے خلاف سراپا احتجاج تصویر: Edd Castro/Pacific Press/picture alliance

دعا لاشی لا کی سرگرمیاں

دعا لاشی لا کی ایسی تصویریں گردش کر رہی ہیں، جن میں انہیں اپنے فوجیوں سے ملاقات کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان میں وہ سابق طلباء اور پیشہ ور افراد شامل ہیں، جو فوجی کارروائیوں کی وجہ سے جنگل میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ نیشنل یونٹی گورنمنٹ کے قائم مقام صدر دعا لاشی لا نے اپنے بیان میں کہا ہے،''مجھے نہیں معلوم کہ میں کب اپنی جان کی بازی ہار جاؤں گا۔ یہ تو خدا کی مرضی پر منحصر ہے۔ میں پہلے ہی سے اپنے ملک کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوں۔‘‘

میانمار: آنگ سان سوچی جیل میں قید تنہائی میں منتقل

پچھلے سال فروری میں اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا، جس کے بعد سے یہاں کی قوم انتشار کا شکار ہے۔ اس فوجی اقدام سے میانمار کی ایک دہائی طویل جمہوری جدوجہد کو جمود کا شکار بنا دیا گیا اور فوج نے اقتدار پر قبضے کرتے ہوئے طاقت کے ذریعے عوامی احتجاج کو مکمل طور پر کچل دیا۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم ایک گروپ 'اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پرزنرز‘ کے مطابق اس لڑائی میں دو ہزار ہلاکتوں کے علاوہ ڈھائی ہزار سے زیادہ عام شہری مارے گئے ہیں، زیادہ تر مظاہروں اور احتجاج کے دوران کریک ڈاؤن میں ہلاک ہوئے۔

میانمار:باغیوں کے حملوں میں سکیورٹی فورسز کے متعدد اہلکار ہلاک

Myanmar Protest gegen Hinrichtungen in Yangon
ینگون میں پُر تشدد مظاہرےتصویر: Str/NurPhoto/IMAGO

یوکرین کی طرح کی سپورٹ

میانمار میں جمہوریت کے حامی جنگجوؤں کو ایسی مسلح فوج کا سامنا ہے، جو روس، چین اور بھارت کے جنگی ہتھیاروں اور طیاروں سے لیس ہے۔ ان طیاروں سے میانمار کی فوج جمہوریت کے حامیوں پر حملے کرتی اور بم برساتی ہے۔ اس ملک میں فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک 1.3 ملین باشندے اندرون ملک نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ اطلاعات اقوام متحدہ کی طرف سے دی گئی ہیں۔ اس عالمی ادارے نے یہ بھی کہا ہے کہ میانمار کی فوج کی طرف سے حملوں کے دوران جنگی جرائم کے ارتکاب کو بھی بعید الزامکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس بارے میں تاہم جنتا سے تبصرے کی درخواست کے باوجود خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ یہ عام شہریوں پر فضائی حملے نہیں کرتی اور یہ کہ اس کے آپریشنز ' دہشت گردوں‘ کے حملوں کا جواب ہوتے ہیں۔

میانمار میں ملٹری جنتا کے اقتدار کے 100 دن

دعا لاشی لا نے دعویٰ کیا ہے کہ اپوزیشن جنگجوؤں نے فوجی جنتا کے 20 ہزار فوجیوں کو ہلاک کیا ہے۔ تاہم اس کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ انہوں نے کہا، ''اگر ہمارے پاس طیارہ شکن ہتھیار ہوتے تو محتاط طریقے سے ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم چھ ماہ میں جیت سکتے تھے۔‘‘ دعا لاشی کا مزید کہنا تھا،''کاش ہمیں وہی حمایت، جو یوکرین کو امریکہ اور یورپی یونین سے ملتی ہے، ملتی تو ہمارے جن لوگوں کو ذبح کیا جا رہا ہے ان کے مصائب و آلام یکدم  ختم ہو جا تے۔‘‘

ک م / ع ا (روئٹرز)