’ڈپریشن: آؤ بات کریں‘، آج صحت کا عالمی دن ہے
7 اپریل 2017اُداسی کی کیفبت کا بیماری کی شکل میں بدل جانا ڈپریشن کہلاتا ہے۔ یہ ایک ایسی ذہنی بیماری ہے، جو نہ صرف انسان کے روز مرہ کے معمولات پر اثر انداز ہوتی ہے بلکہ خودکشی جیسے انتہائی اقدام کا سبب بھی بنتی ہے۔
کراچی یونیورسٹی میں پنجوانی سینٹر برائے مولیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ سے تعلق رکھنے والی پروفیسر ڈاکٹر احسنہ ڈار کے مطابق پاکستان کی تقریباً 34 فیصد آبادی ذہنی دباؤ یا ڈپریشن کا شکار ہے۔ اس 34 فیصد آبادی میں سے کراچی کی 35.7 فیصد، کوئٹہ کی 43 فیصد جبکہ لاہور کی 53.4 فیصد آبادی ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔
سینٹرل سٹی ہسپتال سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر نرمل نیازی پاکستانی معاشرے میں ڈپریشن بڑھنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہتی ہیں:’’ہمارے معاشرے کی اقدار نہایت مضبوط ہوا کرتی تھیں مثلاً خاندان کو ایک اکائی کی حیثیت حاصل تھی، اس لیے لوگوں میں ذہنی دباؤ کے رجحان میں کافی حد تک کمی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب اس میں تبدیلی آتی جا رہی ہے۔ اب یہ اکائی بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہے۔ پھر معاشرے میں شدت پسندی کا رجحان بھی بد قسمتی سے بہت بڑھ گیا ہے۔ اس کے علاوہ نوجوان نسل میں بھی ڈپریشن حد سے زیادہ نظر آ رہا ہے اور ہمارے پاس آنے والوں میں نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘
ڈاکٹر نرمل کہتی ہیں کہ ڈپریشن اور اداسی کی کیفیت میں فرق کرنا ضروری ہے۔ ڈپریشن کی وجوہات کی موجودگی میں لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آس پاس کے لوگوں میں اس کی مخصوص علامات پر نظر رکھیں:’’سب سے پہلے تو اگر کوئی شخص کسی ایسی چیز میں دلچسپی لینا چھوڑ دے، جس میں پہلے وہ دلچسپی لیا کرتا تھا تو یہ ڈپریشن کی سب سے ظاہری علامت ہے۔ اُداسی کا مستقل ذہن پر چھایا رہنا، بہت زیادہ سونا یا کم نیند لینا، بھوک یا تو کم لگنا یا بہت زیادہ لگنا، ذہنی توانائی میں کمی، نا امیدی کی شدید کیفیت کا طاری ہونا، خوشی کے احساس کا ختم ہو جانا، یہ سب وہ علامات ہیں جن کے ظاہر ہوتے ہی ماہر نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے۔ کیونکہ شدید ڈپریشن اور نا امیدی کی صورت میں مریض اپنی جان لینے کے بارے میں کثرت سے سوچتا ہے اور اس کی کوشش کرتا ہے۔‘‘
آغا خان ہسپتال کے شعبہٴ دماغی امراض کے صدر ڈاکٹر محمد واسع پاکستان میں اس بیماری سے متعلق اثرات کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ملک میں ہونے والی خود کشیوں میں ڈپریشن کے مریضوں کا حصہ 2 ہزار سالانہ ہے جبکہ تقریباً 20 ہزار افراد ایسے ہیں، جو اس مرض کی شدت کی وجہ سے خود کشی کی ناکام کوششیں کرتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اس بیماری کے لیے عمر اور جنس کی بھی حد نہیں، کسی بھی شعبہٴ زندگی سے تعلق رکھنے والے اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر علیزہ نقوی کہتی ہیں کہ ملک میں جان و مال کے حوالے سے خدشات، بے روزگاری اور غربت میں مسلسل اضافے کے باعث لوگ ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں:’’بہت سے کیسز ایسے ہوتے ہیں، جن میں مریض کو اندازہ بھی نہیں ہو پاتا کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہے۔ ایسے میں اگر وہ اپنی پریشانی کی کیفیت سے کسی کو آگاہ کرے، کسی سے بات کرے تو ذہنی دباؤ میں بہت حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔ گو کہ ایسا کرنے سے انہیں ذہنی مریض یا پاگل ہونے کا طعنہ بھی دیا جا سکتا ہے لیکن اس سوچ کو ختم کرنے کے لیے، اس خیال کو بدلنے کے لیے، ضروری ہے کہ اداسی یا یاسیت محسوس کرنے والا اپنی بات بلند آواز میں کرے۔ اور جتنی جلدی ممکن ہو کسی ماہر نفسیات سے رابطہ کرے تاکہ دواؤں یا تھیراپی کے ذریعے ڈپریشن کا خاتمہ کیا جا سکے۔‘‘
ڈبلیو ایچ او کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق دنیا میں 300 ملین سے زائد افراد ڈپریشن کا شکار ہیں۔ 2005ء اور 2015ء کے درمیانی عرصے میں اس مرض میں مبتلا افراد کی تعداد میں 18 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ دنیا بھر میں سالانہ تقریبا ً 8 لاکھ افراد ڈپریشن کی وجہ سے خودکشی کر لیتے ہیں، جن میں سے بیشتر افراد کی عمریں 15 سے لے کر 29 سال تک ہوتی ہیں۔ 20 فیصد لوگ ڈپریشن کی وجہ سے دیگر نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو کر نفسیاتی مریض بن جا تے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق اگر اس مرض پر قابو نہ پایا گیا تو خدشہ ہے کہ ڈپریشن کا شمار 2020ء تک دنیا میں دوسری بڑی بیماریوں میں ہونے لگے گا۔