چین کی جانب سے شام کے لیے پہلے خصوصی مندوب کی تقرری
29 مارچ 2016نیوز ایجنسی روئٹرز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیجنگ حکومت کی جانب سے یہ تقرری منگل اُنتیس مارچ کو عمل میں لائی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اب تک صورتِ حال یہ رہی ہے کہ چین عرب دنیا سے درآمد کیے جانے والے تیل پر تو انحصار کرتا رہا ہے لیکن اُس نے مشرقِ وُسطیٰ میں سفارت کاری کا معاملہ زیادہ تر عالمی سلامتی کونسل کے دیگر مستقل ارکان یعنی امریکا، برطانیہ، فرانس اور روس پر ہی چھوڑے رکھا ہے۔
اب لیکن چین اپنی اس سابقہ روایت سے ہَٹ کر عرب دنیا کے معاملات میں زیادہ دلچسپی لیتا نظر آتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ حال ہی میں جہاں شامی وزیر خارجہ نے چین کا دورہ کیا، وہاں شامی اپوزیشن کے ارکان بھی چین گئے، گو یہ دورے دو مختلف اوقات میں عمل میں آئے۔
روئٹرز کے مطابق وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہونگ لی نے روزانہ پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ شام کے لیے شی شیاؤ یان کو نیا خصوصی مندوب برائے شام مقرر کیا گیا ہے، جو ایران سے پہلے حال ہی میں ایتھوپیا اور افریقی یونین میں بھی چین کے سفیر رہ چکے ہیں۔
ترجمان ہونگ لی نے کہا:’’اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کے طور پر چین ہمیشہ شامی تنازعے کے ایک مناسب حل کے لیے کوشاں رہا ہے۔‘‘ ترجمان نے مزید کہا کہ اس تنازعے پر محض ایک سیاسی حل کے ذریعے ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہونگ لی کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین اقوام متحدہ کی طرف سے مقرر کردہ خصوصی ایلچی اسٹیفان ڈے مستورا کی ثالثی کوششوں کی حمایت کرتا ہے اور بیجنگ حکومت نے خطّے میں انسانی امداد بھی فراہم کی ہے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ چین کی جانب سے شام کے لیے ایک خصوصی مندوب کی تقرری کا مقصد ’چینی بصیرت‘ اور چینی تجاویز کے ذریعے خطّے میں امن عمل کو تقویت دینا ہے۔ ہونگ نے بتایا کہ باسٹھ سالہ شی ایک تجربہ کار سفارت کار ہیں اور مشرقِ وُسطیٰ کے معاملات سے گہری واقفیت رکھتے ہیں:’’ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنے مشن کو احسن طریقے سے سرانجام دیں گے۔‘‘ واضح رہے کہ چین پہلے بھی بحرانی خطّوں کے لیے خصوصی مندوب مقرر کرتا رہا ہے، جس پر ملا جُلا ردعمل دیکھا گیا ہے۔
چین کی طرف سے افریقہ کے لیے مقرر کیے جانے والے مندوبین جنوبی سوڈان کے معاملے میں گہری دلچسپی لیتے رہے ہیں لیکن جہاں تک مشرقِ وُسطیٰ کے لیے متعین کیے گئے خصوصی مندوبین کا معاملہ ہے، یہ زیادہ ٹھوس نتائج سامنے نہیں لا سکے ہیں۔
واضح رہے کہ آج کل شام میں فائر بندی پر عملدرآمد جاری ہے۔ اس فائر بندی کو شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ ساتھ اُن کے بہت سے مخالفین بھی قبول کر چکے ہیں۔ پانچ سال پہلے شروع ہونے والی خانہ جنگی میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی فائر بندی ہے۔ اس فائر بندی کے ساتھ ساتھ پہلی مرتبہ امن مذاکرات بھی منعقد ہو رہے ہیں، جن میں دہشت گرد گروہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ اور النصرۃ فرنٹ کو چھوڑ کر تمام متحارب فریق شریک ہیں۔