1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین کا اپنے صحافیوں کے بھارت سے نکالے جانے پر اظہار برہمی

صائمہ حیدر25 جولائی 2016

بھارت نے چین کے سرکاری خبر رساں ادارے شنہوا کے صحافیوں کے ایک گروپ کے ویزوں کی تجدید سے انکار کر دیا ہے۔ بھارتی حکومتی ذرائع کے مطابق تینوں صحافیوں کو ایک ہفتے کے اندر ملک چھوڑنا ہو گا۔

https://p.dw.com/p/1JVMS
Pro-Tibet Aktivisten erwarten Dalai Lama in Genf
بہت سے تبتی پناہ گزین بھارتی شمالی علاقے دھرم شالہ میں اور اس کے ارد گرد آباد ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/M. Trezzini

بھارت میں حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان چینی صحافیوں نے مبینہ طور پر تبتی پناہ گزین کیمپوں کے غیر مجاز دورے کیے تھے۔ نئی دہلی میں ایک سینئیر حکومتی عہدیدار نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ تینوں چینی صحافیوں کو ایک ہفتے کے اندر بھارت چھوڑنا ہو گا۔

ایک حکومتی عہدیدار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ایسا بھارتی سکیورٹی سروسز کی ایماء پر کیا گیا ہے۔ اس عہدیدار نے مزید کہا کہ چینی صحافی بھارتی سکیورٹی اداروں کی نظروں میں آ گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا، ’’وہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہو رہے تھے جو ان کی صحافتی حیثیت سے ہم آہنگ نہیں تھیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ان تینوں صحافیوں کو سرکاری طور پر ملک بدر نہیں کیا جا رہا تاہم ان کے سالانہ ویزوں کی تجدید نہیں کی جائے گی اور انہیں اکتیس جولائی تک بھارت سے جانا ہو گا۔

دوسری جانب بیجنگ کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے بھارت کے اس فیصلے کو نامناسب قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ اس پیشرفت پر سرکاری طور پر ابھی تک بھارتی حکام کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے لیکن بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ان میں سے دو صحافیوں نے گزشتہ برس ملک کی وزارت داخلہ سے اجازت لیے بغیر اور جھوٹی ذاتی شناخت کے ساتھ بھارتی جنوبی ریاست کرناٹک میں قائم تبتی بستیوں کا دورہ کیا تھا۔

Staatsbesuch Indiens Premierminister Modi besucht China Xi Jinping
چینی صحافیوں کے بھارت سے نکالے جانے کے معاملے پر دونوں ممالک کے درمیان تناؤ پیدا ہو سکتا ہےتصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon

اخبار نے ایک سرکاری اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے، ’’صحافیوں کے پاس مہاجر بستی کا دورہ کرنے کے لیے درکار پرمٹ نہیں تھا اور وہاں پہنچنے پر ان کی اصلی شناخت کا بھی پتہ چل گیا۔‘‘

خیال رہے کہ بھارت میں ہزاروں تبتی پناہ گزین آباد ہیں۔ یہ پناہ گزین سن انیس سو اکاون میں اس وقت اپنا وطن چھوڑ کر بھارت منتقل ہو گئے تھے جب چین نے ایک بغاوت کو کچلنے کے لیے وہاں اپنے فوجی دستے بھیجے تھے۔

تبتیوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ سمیت اب بہت سے تبتی پناہ گزین بھارتی شمالی علاقے دھرم شالہ میں اور اس کے ارد گرد آباد ہیں اور جلا وطن تبتی حکومت بھی اسی علاقے سے کام کر رہی ہے۔ دیگر پناہ گزین بھارت میں مختلف مقامات میں قائم بستیوں میں قیام پذیر ہیں جہاں غیر ملکیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔

ایسا ہی ایک پناہ گزین کیمپ کرناٹک میں بھی ہے، جہاں کم و بیش چالیس ہزار تبتی آباد ہیں۔ جلا وطن تبتی کمیونٹی نے دھرم شالہ حکومت کی قیادت کے لیے رواں برس اپریل میں انتخابات بھی منعقد کرائے تھے۔ یاد رہے کہ اس جلا وطن کمیونٹی کی تنظیم کو تسلیم کرنے سے چین مسلسل انکار کرتا آیا ہے۔

Indien Dharamsala Wahlen Exil-Tibeter Mönche
جلا وطن تبتی حکومت بھارت کے قصبے دھرم شالہ میں قائم ہےتصویر: Reuters/A. Abidi

بھارت کا جلا وطن تبتی حکومت کی میزبانی کرنا دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان ایک طویل عرصے سے تنازعے کی وجہ بنا ہوا ہے۔ دنیا کی دو سب سے گنجان آباد ممالک کے درمیاں تناؤ میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا تھا، جب حال ہی میں چین نے بھارت کے اڑتالیس قومی جوہری تجارتی گروپ کا رکن بننے کے خلاف ووٹ کا حق استعمال کیا۔

آج چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز کے ایک اداریے کی رائے میں ایسی افواہ گردش کر رہی ہے کہ چینی صحافیوں کے ویزوں میں تجدید نہ کر کے بھارتی حکومت جوہری ٹریڈ گروپ میں اپنی رکنیت کے حوالے سے چین کی مخالفت کا بدلہ لے رہی ہے۔ اسی اداریے میں یہ بھی لکھا ہے کہ بیجنگ کو بھی چند بھارتی افراد کو یہ محسوس کرانے کی ضرورت ہے کہ چین کے ویزوں کا حصول بھی اتنا آسان نہیں۔