1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین: غیر معمولی احتجاجی مظاہروں کے بعد کووڈ کی پابندیاں ختم

1 دسمبر 2022

حکام نے گوانگ ژو میں کم از کم سات اضلاع سے عارضی لاک ڈاون ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سرکاری میڈیا نے ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ وائرس کا زور کمزور ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4KKB6
China Protest gegen COVID-19-Beschränkungen in Guangzhou
تصویر: REUTERS

چینی حکومت کی جانب سے کووڈ کے نئے کیسز سامنے آنے کے بعد انتہائی سخت لاک ڈاون جیسا متنازع لائحہ عمل اب کمزور پڑتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ حکام نے کئی بڑے شہروں میں غیر معمولی احتجاجی مظاہروں کے بعد پابندیوں کو نرم کرنے کے اشارے دیے ہیں۔

چین میں صدر شی جن پنگ کے خلاف غیر معمولی مظاہرے

مینوفیکچرنگ کے مرکز کے طور پر مشہور گوانگ ژو صوبے کے کم از کم سات اضلاع میں بدھ کے روز لاک ڈاون اٹھا لیا گیا۔ ان میں ہائژو شہر بھی شامل ہے جہاں حالیہ دنوں میں سب سے بڑے مظاہرے دیکھنے کو ملے تھے۔ وسطی شہر چونگ قنگ میں پابندیوں میں نرمی کی گئی ہے۔

کووڈ کا وائرس 'کمزور' پڑ گیا ہے

چین کی نائب وزیراعظم سون چونلان، جو ملک میں انسداد کووڈ مہم کے نگراں بھی ہیں، نے بتایا کہ وائرس اب کمزور پڑتا جا رہا ہے اور اس کے اثر انداز ہونے کی صلاحیت کم ہو رہی ہے۔

انہوں نے چین کی سرکاری میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "وبا کی روک تھام اور کنٹرول کے حوالے سے ملک ایک نئی صورت حال اور نئے اقدامات کا متقاضی ہے کیونکہ اومیکرون وائرس کی اثرپذیری کمزور ہو رہی ہے، زیادہ سے زیادہ افراد کو ویکسین لگائے جارہے ہیں اور وائرس کو قابو میں کرنے کے تجربات بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔"

انہوں نے، ٹیسٹنگ، علاج اور قرنطینہ پالیسیوں کو زیادہ بہتر بنانے پر بھی زور دیا۔

سنکیانگ میں غیر معمولی مظاہروں کے بعد لاک ڈاؤن میں نرمی

نائب وزیراعظم سون چونلان کا بیان اس لحاظ سے کافی اہم ہے کہ یہ انتہائی سخت لاک ڈاون نافذ کرنے کے حوالے سے چین کے سرکاری موقف کے برخلاف ہے۔ حالانکہ دنیا کی دیگر بڑی معیشتوں نے لاک ڈاون کو بہت پہلے ختم کردیا ہے۔

حالیہ تحریک کو سول نافرمانی کی سب سے بڑی لہر قرار دیا جا رہا ہے، جس سے عوامی جمہوریہ چین 1989ء میں تیانمن سانحے کے بعد دوچار ہے
حالیہ تحریک کو سول نافرمانی کی سب سے بڑی لہر قرار دیا جا رہا ہے، جس سے عوامی جمہوریہ چین 1989ء میں تیانمن سانحے کے بعد دوچار ہےتصویر: REUTERS

سون نے ملک کے مختلف حصوں میں حالیہ دنوں ہونے والے زبردست احتجاجی مظاہروں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ حالانکہ سخت انسداد وبا پالیسیوں پرعمل درآمد کے باوجود چین میں روزانہ کووڈ کے نئے کیسز کا ریکارڈ اندراج ہو رہا ہے۔

کووڈ لاک ڈاؤن کی وجہ سے چین کی معاشی ترقی کی رفتار سست ہو گئی

کووڈ کے نئے کیسز سامنے آنے کے بعد حکومت نے لاک ڈاون نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد شنگھائی، بیجنگ اور دیگر شہروں میں بڑے پیمانے پر پرتشدد مظاہرے ہوئے۔ بدھ کے روز گوانگ ژو میں سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر لاٹھیاں برسائیں۔

چین کے اعلیٰ سکیورٹی ادارے نے منگل کو ایک انتباہ جاری کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ حکام ''دشمن قوتوں کی دراندازی اور تخریب کاری کی سرگرمیوں"کے خلاف ''کریک ڈاؤن" سے باز نہیں آئیں گے جبکہ سویلین حکام نے کہا کہ ''غیر قانونی اور مجرمانہ کارروائیاں، جو سماجی نظم و ضبط میں خلل ڈالیں گی، قبول نہیں کی جائیں گی۔"

چین میں اس حالیہ تحریک کو سول نافرمانی کی سب سے بڑی لہر قرار دیا جا رہا ہے، جس سے عوامی جمہوریہ چین 1989ء میں تیانمن سانحے کے بعد دوچار ہے۔

 چین کی نائب وزیر اعظم کی جانب سے تازہ ترین بیان کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ کی طرف سے ملک میں عائد سخت انسداد کووڈ پالیسی جلد ہی ختم ہو سکتی ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اے این زیڈ تھنک ٹینک کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نئے ضابطوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ "چینی حکام 'کووڈ کے ساتھ زندگی گزارنے' کے موقف کی جانب بڑھ رہے ہیں کیونکہ اب زبردستی قرنطینہ مراکز لے جانے کے بجائے لوگوں کو 'گھروں میں ہی الگ تھلگ رہنے' کی اجازت دے دی گئی ہے۔"

ج ا/ ص ز (اے ایف پی، روئٹرز)