چین، جاپان اور جنوبی کوریا کے رہنماؤں کا سربراہ اجلاس
1 نومبر 2015اِس سہ فریقی سمٹ کی میزبان جنوبی کوریا کی خاتون صدر پارک گُون ہَے تھیں۔ اُن کے ساتھ چینی وزیراعظم لی کیچیانگ اور اُن کے جاپانی ہم منصب شینزو آبے اِس اہم علاقائی سربراہ اجلاس میں شریک تھے۔ توقعات کے عین مطابق اس سمٹ میں کوئی بڑی پیش رفت تو نہ ہوئی تاہم تینوں ملکوں کے لیڈران نے قریبی سفارتی اور اقتصادی تعلقات کو تقویت دینے پر اتفاق ضرور کیا۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس سمٹ میں جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے اور جنوبی کوریا کی صدر پارک گُون ہَے نے چینی وزیر اعظم لی کیچیانگ کے ساتھ بعض متنازعہ معاملات پر بھی بات کی۔
سربراہ اجلاس کے بعد ایک طویل علامتی مشترکہ بیان بھی جاری کیا گیا۔ اِس بیان میں واضح کیا گیا کہ لیڈران نے سہ فریقی تعاون کو مزید تقویت دینے پر غور کیا ہے۔ شمالی ایشیا کی تین بڑی اقتصادی قوتوں کے لیڈران نے علاقائی سکیورٹی کو مزید بہتر کرنے پر اتفاق کے علاوہ سفارتی و اقتصادی رابطہ کاری کو مزید فعال بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ تینوں لیڈروں نے شمالی کوریا کی جوہری ہتھیار سازی کے عمل کی مخالفت جاری رکھنے کو اہم خیال کیا۔
آج اتوار کو ہونے والی میٹنگ نوے منٹ تک جاری رہی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آج اتوار یکم نومبر کو ہونے والی اس سمٹ میں لیڈران کا بنیادی فوکس اقتصادیات پر رہا۔ مبصرین کے خیال میں یہ اِس تناظر میں اہم ہے کہ چینی معیشت کو سست روی کا سامنا ہے۔ چین کی یہ بھی کوشش ہے کہ سست ہوتی اقتصادیات کو کسی طرح ایسا عمل انگیر دیا جائے جو اِس کی رفتار کو بحال کر دے۔ سمٹ سے قبل ہفتے کے روز چینی وزیر اعظم اور جنوبی کوریائی صدر باہمی تجارتی معاملات سے متعلق ایک اجلاس میں بھی شریک ہوئے تھے۔ صدر پارک گُون ہَے جاپانی وزیر اعظم کے ساتھ کل پیر کے روز ایسی ہی ملاقات کریں گی۔ چینی وزیر اعظم لی کیچیانگ گزشتہ روز جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیؤل پہنچے تھے۔
اِن تینوں ملکوں کے درمیان سالانہ بنیادوں پر سمٹ منعقد کرنے کا فیصلہ سن 2008 میں کیا گیا تھا۔ پہلی میٹنگ بھی اُسی سال ہوئی اور پھر سن 2012 کی سمٹ کے بعد مختلف حالات کے تناظر میں سالانہ سمٹ کا سلسلہ معطل ہو گیا۔ اس میں جاپان کے چین اور جنوبی کوریا کے ساتھ مجموعی تعلقات میں پیدا ہونے والی سردمہری کو نمایاں خیال کیا جاتا ہے۔ یہ میٹنگ ایسے وقت میں ہوئی ہے جب امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر بھی خطے میں موجود ہیں۔