1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین اور یورپی یونین کا سربراہ اجلاس تعطل کا شکار

عابد حسین ⁄ مقبول ملک21 مئی 2009

ایسے اندازے لگائے گئے تھے کہ چین اور یورپی یونین کا سربراہ اجلاس منعقدہ پراگ کامیابی سے ہمکنار ہو گا مگر یہ ممکن نہ ہو سکا اور دونوں فریق اپنی اپنی سوچ کے ساتھ جڑے رہے اور سمٹ تعطل کا شکار ہو گئی۔

https://p.dw.com/p/HuRB
چین کے وزیر اعظم اور یورپی کمیشن کے صدر، پراگ میںتصویر: picture-alliance/ dpa

چین اور یورپی یونین کے درمیان مفاہمتی کانفرنس میں خیر سگالی کی گنجائش پیدا نہ ہو سکی۔ فریقین اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے اور سربراہ کانفرنس تعطل کا شکار ہو کر رہ گئی۔ پراگ میں ہونے والی میٹنگ میں حتمی اعلامیہ اِس لئے جاری نہ ہو سکا کہ اُس میں کلیدی نکات کے لئے استعمال میں لائے گئے الفاظ کے چناؤ پر بھی دونوں اطراف کو اعتراض تھا۔

چین اور یورپی یونین جن امور پر اختلافات کو ختم کرنے میں یا ایک بیچ کا راستہ اختیار کرنے میں بھی ناکام رہے، اُن میں میانمار، شمالی کوریا، تائیوان، ماحولیاتی تبدیلی، آزادانہ تجارت اور اقلیتوں کے حقوق شامل ہیں۔

China EU Treffen in Prag Tschechien
یورپی یونین سربراہ اجلاس منعقدہ پراگتصویر: AP

اِن تمام امور پر اختلاف کے بعد ماہرین کا خیال ہے کہ اور کون سے نکات ہیں جن پر اتفاق ہوا ہے۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ فریقین نے ہر مقام پر اختلاف کو ہوا دی اوراِسی باعث اتفاقِ رائے ممکن نہیں ہو سکا۔

چین کے وزیر اعظم وین جیا باؤ نے یورپی یونین کو واضح طور پر بتایا کہ وہ اپنے عملی تعاون کا دائرہ وسیع کرے نہ کہ وہ چین کو مجبور کرے کہ وہ بیرونی اور اندرونی معاملات پر اپنی پوزیشن میں تبدیلی پیدا کرے۔ چینی وزیر اعظم کا مزید کہنا ہے کہ اہم یہ ہے کہ باہمی احترام کے اُصُول پر قائم رہا جائے اور ویسے بھی دوسروں کے اندرونی معاملات پر انگلی اٹھانا مداخلت کے برابر ہے۔ یورپی ملک چیک جمہوریہ کے دارالحکومت میں وین جیا باؤ نے مزید کہا کہ یورپی یونین اِس کا احساس کرے اور دوطرفہ تعلقات کو انفرادی واقعات سے متاثر نہ ہونے دے۔

Symbolbild Europa China
چیک جمہوریہ کے دارالحکومت پراگ میں یورپی یونین اور چین کے لہراتے جھنڈےتصویر: picture-alliance / dpa

پراگ میں یورپی یونین اور چین کے سربراہ اجلاس سے قبل ہی سفارتکاروں کو میٹنگ میں اٹھنے والے اختلافی معاملات کا احساس ہو گیا تھا۔ دونوں اطراف سے ایک دوسرے کو مختلف معاملات پر پہلے سے طے شدہ مؤقف کے تناظر میں ایک طویل مسودہ فراہم کردیا گیا تھا۔ اِس کے بعد ہونے والی دو گھنٹے کی ملاقات میں سردمہری کی چادر تنی رہی۔ یورپی لیڈران اور چینی وزیر اعظم اپنے اپنے مقام پر ڈٹے رہے۔ اپنےمؤقف میں تبدیلی یا لچک پیدا کرنے کے بجائے وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔

میٹنگ کے بعد جو اعلامیہ مرتب کیا گیا وہ یورپی یونین کی جانب سے دس صفحات پر مبنی تھا جب کہ چین نے میٹنگ کی تفصیلات کو سات صفحوں میں سمویا۔ اِن صفحات میں فریقین کی جانب سے اختلافی معاملات پر مبہم اور غیر واضح پیراگراف لکھے گئے تھے جن کی تشریح ڈیڈ لاک کا باعث بنی۔

میانمار میں اپوزیشن لیڈر سوچی کے شو ٹرائل کو ختم کرنے سے لےکر شمالی کوریا کے میزائیل تجربے کی مذمت تک، تبت میں انسانی حقوق کی بات ہو یا نسلی اقلیتوں کے حقوق کا معاملہ، کسی ایک مقام پر بھی یورپی لیڈر چینی وزیر اعظم کو قائل کرنے میں یا اُن کے طے شدہ مؤقف میں تبدیلی لانے سے قاصر رہے۔ اِسی طرح گرم ہوتے ماحول پر بھی ہم خیالی خواب رہی۔ چین اِس سلسلے میں ترقی یافتہ ملکوں کو مشورہ دے رہا ہے کہ وہ ترقی پذیر ملکوں کی مدد کریں تاکہ سبز مکانی گیسوں کا اخراج محدود کیا جا سکے۔

ایسی صورت میں یہ خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے کہ کیا اِس سال کوپن ہیگن کی عالمی ماحول کانفرنس کے دوران کسی حتمی معاہدے کو طے کیا جا سکے گا یا نہیں۔

چین نے گزشتہ سال پہلی دسمبر کی سمٹ کو فرانسیسی صدر کے جلا وطن تبتی رہنما دلائی لاما سے ملنے کے بعد منسوخ کردیا تھا۔ وہ سربراہ میٹنگ فرانس کے شہر Lyon میں منعقد ہونی تھی۔