’چھپی جنت‘ کے دروازے کھلتے ہوئے
6 جولائی 2011پاپوا کے اس حصے کا تفریحی سفر کرنے والوں کی تعداد ابھی بھی بہت کم ہے۔ زیادہ سے زیادہ وہاں ایک سال میں صرف چند ہزار غیر ملکی ہی آتے ہیں۔ ساراگیبل ایک 29 سالہ امریکی خاتون ہے جو ان سیاحوں میں شامل ہے۔ ان کا کہنا ہے ’’میں یہاں لوگوں کے فطرت کے ساتھ ہم آہنگی سے رہنے سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔‘‘ سارا گیبل کو یہ احساس وادیء بلیم میں دانی قبیلے کے وامینا نامی قصبے میں ہوا، جو پاپوا کے مرکزی پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔ سارا گیبل کے مطابق، ’’میں نے اس علاقے میں ایک ہفتے تک سفر کیا ہے، جس دوران میں نے جنگل میں دریا بھی پار کیے، جھونپڑیوں میں بھی سوئی اور لوگوں کو جنگلی جانوروں کا تیروں سے شکار کرتے ہوے بھی دیکھا‘‘۔
اس قسم کی ’قبائلی سیاحت‘ نیو گنی کے لیے، جو ایشیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے، بڑی اہم مارکیٹ بن گئی ہے۔ پرکشش جنگلی حیات سے بھرا ہوا پاپوا اتنا پرکشش علاقہ ہے کہ فطرت کا مطالعہ کرنے والے اور پرندوں سے متعلقہ علوم کے ماہرین نایاب پودوں اور جانوروں کی تلاش میں وہاں کا رخ کرتے ہیں۔
اسی ہفتے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ نے اعلان کیا کہ نیو گنی میں ایک ہزار سے زیادہ جانوروں کی نئی قسمیں پائی گئی ہیں، جن میں سے ایک ایسا مینڈک بھی ہے، جس کے منہ میں دانتوں کی طرح کے بڑے زہریلے اعضاء ہوتے ہیں۔
لیکن کچھ لوگ ایسے رویے کے خلاف خبردار کر رہے ہیں کہ اس’قبائلی سیاحت‘ کے ذریعے مقامی قبائلی باشندوں کی بہت قدیم انسانوں کےطور پر تشہیر کی جائے جو کہ وہ نہیں ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اب دانی قصبے کے لوگ سیاحوں کو دکھانے کے لیے قدیم دور کی قبائلی جنگوں کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ عام طور پر اگر وہ ٹی شرٹ اور نیکر پہنتے ہوئے ہوتے ہیں تو سیاحوں کی آمد پر وہ اپنے جسموں پر رنگ مل کر قدیم جنگوں کے شو پیش کرنے لگتے ہیں۔
پاپوا میں سیاسی حالات بھی اچھے نہیں ہیں۔ انڈونیشی فوج پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ مقامی لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مرتکب ہوتی ہے۔ غیر ملکی صحافیوں اور امدادی کارکنوں کو پاپوا جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس لیے اگر انڈونیشیا چاہتا ہے کہ مستقبل میں وہاں زیادہ سیاح جائیں، تو حکومت کو اپنی ساکھ میں بہتری کے لیےلازمی طور پر بہت کچھ کرنا ہوگا۔
رپورٹ: راحل بیگ
ادارت: مقبول ملک