1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پناہ ہی چاہيے، تو بلغاريہ کيوں نہيں؟

ماريہ الچيوا / عاصم سليم28 اپریل 2016

سال رواں کے دوران ہزارہا مہاجرين بلغاريہ پہنچ چکے ہيں تاہم بہت ہی کم اس ملک ميں مستقل قيام کے خواہاں ہيں۔ ڈوئچے ويلے سے منسلک ماريا الچيوا نے بلغاريہ کے سب سے بڑے مہاجرين کيمپ جا کر اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کی۔

https://p.dw.com/p/1IeVp
تصویر: Reuters/O.Teofilovski

ترک سرحد سے قريب ساٹھ کلوميٹر کے فاصلے پر بلغاريہ کا سب سے بڑا ہرمانلی نامی مہاجر کيمپ قائم ہے۔ سينتيس سالہ شامی کرد پناہ گزين رشيد الاوی وہاں دو برس قبل پہنچا تھا۔ رشيد روانی کے ساتھ انگريزی زبان ميں بات چيت کر ليتا ہے اور اپنے آبائی شہر شامی دارالحکومت دمشق ميں وہ سياحوں کے ايک گائيڈ کے طور پر کام کرتا تھا۔ رشيد اپنی تمام جمع پونجی لگا کر پانچ سو يورو کے عوض اکتوبر سن 2013 ميں انسانی اسمگلروں کا سہارا ليتے ہوئے يورپ پہنچا تھا ليکن پھر آگے جانے کے ليے اس کے پاس مزيد رقم نہ تھی۔ رشيد کو بلغاريہ کی ريڈ کراس ماہانہ پانچ سو يورو ديتی ہے، جس کے بدلے وہ وہاں پہنچنے والے نئے شامی مہاجرين کی مدد اور ان کے ليے ترجمے کا کام کرتا ہے۔

اگرچہ بلغاريہ کو بلقان ممالک کے متبادل کے طور پر ديکھا جا سکتا ہے ليکن پھر بھی اس ملک ميں رشيد جيسے پناہ گزين شاز و نادر ہی ملتے ہيں۔ جو چند ايک تارکين وطن بلغاريہ پہنچ بھی جاتے ہيں، وہ بعد ازاں آگے بڑھ جاتے ہيں۔ سال رواں کے دوران بلغاريہ ميں قائم اندراج کے مراکز ميں ساڑھے چار ہزار مہاجرين کا اندراج ہو چکا ہے ليکن ان ميں سے صرف سات سو وہاں قيام پذير ہيں۔

شامی پناہ گزين رشيد الاوی کا شمار ان چند ايک افراد ميں ہوتا ہے، جنہوں نے بلغاريہ کو گھر بنايا۔ اس بارے ميں بات کرتے ہوئے ہرمانلی کيمپ کے منتظم جارڈن ميلانو کہتے ہيں، ’’بات دراصل يہ ہے کہ تارکين وطن يہ بات جانتے ہيں کہ جرمنی، ڈنمارک اور سويڈن ميں انہيں کہيں زيادہ سہوليات ميسر ہوں گی۔ ہم انہيں يہاں صرف سر پر چھت اور کھانا پينا فراہم کرتے ہيں۔‘‘

کيمپ ميں موجود ايک اٹھائيس سالہ حاملہ شامی پناہ گزين اوآردا حسين اپنا موقف بيان کرتے ہوئے بتاتی ہے، ’’جرمنی ميں ہر چيز بہتر ہے۔‘‘ اوآردا اپنے خاوند اور سات بچوں کے ہمراہ ہرمانلی کے کيمپ ميں پچھلے چھ ماہ سے مقيم ہے۔ اس خاندان نے جرمنی پہنچنے کے ليے اسمگلروں کو نو ہزار يورو ادا کيے تھے تاہم رات کی تاريکی ميں گھنے جنگل ميں انسانی اسمگلر نے انہيں گاڑی سے يہ کہہ کر اتار ديا کہ وہاں سے ايک اور گاڑی آئے گی اور ان لوگوں کو سربيا پہنچا دے گی۔ پھر نہ تو وہ گاڑی آئی اور نہ وہ جرمنی پہنچ سکے۔ کچھ دير بعد انہيں پوليس نے حراست ميں لے ليا اور جرمنی تک پہنچنے کے ان کے خواب ادھورے رہ گئے۔ اوآردا کے اہل خانہ کو بلغاريہ ميں سياسی پناہ اور اب وہاں کے پاسپورٹ بھی دے ديے گئے ہيں، جن کی مدد سے وہ يورپی يونين ميں بلا رکاوٹ سفر کر سکتے ہيں۔ تاہم وہ سب آج بھی جرمنی ہی جانا چاہتے ہيں۔

سينتيس سالہ شامی کرد پناہ گزين رشيد الاوی
سينتيس سالہ شامی کرد پناہ گزين رشيد الاویتصویر: DW/M. Ilcheva

ہرمانلی کيمپ کے منتظم جارڈن ميلانو کے بقول زيادہ تر مہاجرين بلغاريہ ميں ايک ہفتے سے زيادہ قيام نہيں کرتے۔ وہ رات کے وقت کيمپ چھوڑ کر چلے جاتے ہيں اور جن کے پاس رقم ہوتی ہے، وہ انسانی اسمگلروں کا سہارا لے ليتے ہيں۔ بلغاريہ ميں تين ماہ کيمپ ميں گزارنے کے بعد ہی ملازمت کی اجازت مل جاتی ہے۔ ايک خاتون کيمپ ميں ايک تيئس سالہ عراقی پناہ گزين سے دريافت کرتی ہے کہ آيا وہ باورچی يا بيکر کے طور پر کام کرنا چاہتا ہے؟ اس کے جواب ميں عراقی پناہ گزين کہتا ہے کہ اسے نہيں پتا۔ يہ خاتون بتاتی ہے کہ اب تک کيمپ ميں کسی نے بھی ساڑھے چار سو يورو ماہانہ کی اس ملازمت کی پيشکش قبول نہيں کی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں