1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک روس تعلقات، کیا دوستی کا نیا سفر شروع ہونے کو ہے؟

27 اگست 2012

بگڑتے ہوئے پاک امریکا تعلقات کے بعد پاکستان کے سفارتی اور سیاسی حلقوں میں اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ پاکستان امریکا پر ضرورت سے زیادہ انحصار کو کم کرکے ایک متوازن خارجہ پالیسی تشکیل دے۔

https://p.dw.com/p/15xVp
تصویر: Reuters

ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن پاکستان کے سرکاری دورے پر دو اکتوبر کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ آج کل ان ہی کے دورے کے حوالے سے پاکستان میں خارجہ، داخلہ، پیداوار اور دفاع سمیت کئی وزارتوں کے حکام سرگرمی کے ساتھ تیاریاں کر رہے ہیں۔

حال ہی میں روس کا دورہ کر کے آنے والے پاکستان اسٹیل ملز کے چیئرمین میجرجنرل (ر) جاوید نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاکستان اور روس کے حکام نے پاکستان اسٹیل ملز کی روسی مدد سے توسیع کے منصوبے کے حوالے سے ابتدائی بات چیت مکمل کرلی ہے۔ اب ستمبر میں دونوں ملکوں کی وزارتی کمیٹياں اس پر مزید غور کريں گی اور روسی صدر کی آمد پر اس حوالے سے دونوں ملکوں کے مابین مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ پاک فضائیہ کے سربراہ بھی حال ہی میں روس کا دورہ کر کے آئے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستانی صدر بھی اپنے روسی ہم منصب سے کئی ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ روس پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر بھی پاکستان کی مدد کرنے کی خواہش کا اظہار کر چکا ہے۔ کئی پاکستانی دانشور روس کو گوادر میں کردار آفر کرنے کی بات بھی کر رہے ہیں۔ کیا یہ ساری باتیں پاکستان کی مستقبل کی خارجہ پالیسی میں کسی بنیادی تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔ اس حوالے سے مختلف ماہرین مختلف آراء کا اظہار کر رہے ہیں۔

بین لاقوامی تعلقات کی ممتاز ماہر اور پنجاب یونیوسٹی کے شعبہ سیاسیات کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عنبرین جاوید نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ آج کی دنیا میں طاقت کے مراکز مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہوتے نظر آ رہے ہیں اور روس ایک مرتبہ پھر اہم عالمی کھلاڑی کے طور پر ابھرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ان کے بقول پاکستان کی یک طرفہ طور پر امریکا کے طرف جھکاؤ کی خارجہ پالیسی کو متوازن بنانے اور علاقائی تعاون کو فروغ دیتے ہوئے روس اور چین سے تعلقات کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹرعنبرین کا کہنا تھا کہ دوستوں کے ساتھ وفا کرنے کے حوالے سے بھی روس کا ٹریک ریکارڈ امریکا سے بہت بہتر رہا ہے۔ ان کے بقول روس سے تعلقات بہتر ہو جانے کی صورت میں پاکستان کو اقتصادی لحاظ سے بھی فوائدحاصل ہوں گے۔

دفاعی امور کے ماہر بریگیڈیر (ر) نادر میر کہتے ہیں کہ روس اور چین سے پاکستان کے تعلقات کی بہتری خطے میں پاکستان کی سلامتی کی صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد گار ہو گی، ان کے بقول پاک روس تعلقات کی بہتری کی صورت میں امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں قیام امن میں بھی دونوں ملک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان اور روس تجارتی تعلقات میں فروغ کے علاوہ منشیات اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے بھی مل کر کام کر سکتے ہیں۔ ان کے بقول پاک روس تعلقات کا مطلب امریکا کی مخالفت نہیں بلکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو متوازن بنانا اور قومی مفادات کے لیے نئے مواقع سے فائدہ اٹھانا ہے۔

لاہور سکول آف اکنامکس سے وابستہ معروف ماہر سیاسیات پروفیسر سجاد نصیر نے بتایا کہ اگرچہ زمینی حقائق پاکستان کی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے اور امریکا پر غیر ضروری انحصار کم کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔ پاک امریکا تعلقات میں بہتری کے امکانات فی الحال دکھائی نہیں دے رہے اور پاکستانی رائے عامہ بھی امریکا کے خلاف ہے لیکن اس کے باوجود مسائل میں گھری پاکستان کی کمزورجمہوری حکومت، "ویسٹ اوریینٹد" سول اور ملٹری بیوروکریسی کی موجودگی میں کسی بنیادی تبدیلی کا رسک نہیں لے سکتی۔ ویسے بھی پاکستان اور روس کے ناخوشگوار تعلقات کی تاریخ بہت پرانی ہے،اس لیے اس حوالے سے فی الحال کسی بڑے بریک تھرو کا بھی امکان نہیں ہے۔

ان کے بقول اگر مستقبل میں روس، چین اور ایران کی مثلث بنتی ہے تو اس کے ساتھ پاکستان کا کردار بھی بہت اہم ہو گا۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: عدنان اسحاق