پاکستانی منڈیاں اور بیرونی سرمایہ کاری کی صورت حال
10 جون 2010اقتصادی حوالے سے اس نئی سرمایہ کاری کا حجم بہت زیادہ متاثر کن اور حوصلہ افزا تو نہیں لیکن اس کا بھی ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ سرمایہ کاری اس لئے بہتر ثابت ہو رہی ہے کہ پاکستان کا مرکزی بازار حصص یعنی کراچی سٹاک ایکسچینج ایشیا کی ان چند منڈیوں میں شمار ہوتا ہے، جہاں سال رواں کے شروع سے لے کر اب تک مسلسل ترقی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق مالی سال دوہزار نو، دوہزار دس کے ابتدائی گیارہ مہینوں میں پاکستانی سٹاک مارکیٹوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم 530 ملین امریکی ڈالر سے بھی زیادہ رہا۔
ایشیائی تجارتی منڈیوں کی کارکردگی پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی معیشت اس وقت عالمی اقتصادی اور مالیاتی بحران کے نتائج کے اثرات سے باہر نکلتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس سال حکومتی اندازوں کے مطابق اقتصادی شرح نمو چار فیصد کے قریب رہے گی جبکہ پچھلے سال یہی شرح صرف 1.2 فیصد رہی تھی۔
Templeton Asset Management نامی کاروباری ادارے کے چیف ایگزیکٹو Mark Mobius کے مطابق پاکستانی منڈیاں دیگر ایشیائی ممالک کی مارکیٹوں کے مقابلے میں سستی ہیں اور پھر مقامی معیشت میں بھی بتدریج استحکام دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے IMF کی طرف سے پاکستان کو قرضوں کی فراہمی نے بھی ملکی معیشت کو سہارا دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ان مثبت اشاروں کے باوجود پاکستان مجموعی طور پر آج بھی غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے کسی حد تک غیرموزوں سمجھا جاتا ہے اور جو سرمایہ کار چند مخصوص شعبوں میں اپنا سرمایہ لگا رہے ہیں، وہ بھی ایسا بڑی احتیاط پسندی کے ساتھ کر رہے ہیں۔ زیادہ تر بیرونی سرمایہ توانائی، زرعی کھادوں اور کیمیائی مادوں کے پیداواری اداروں کے حصص میں لگایا جا رہا ہے، کیونکہ ضرورت پڑنے پر یہی سرمایہ دوبارہ باآسانی نقد سرمائے میں تبدیل کرایا جا سکتا ہے۔
کراچی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں ماضی قریب میں براہ راست کی جانےو الی بیرونی سرمایہ کاری میں کمی ہوئی ہے۔ مالی سال دوہزار نو، دوہزار دس کے پہلے دس مہینوں کے دوران ایسی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم صرف 1.77 بلین امریکی ڈالر رہا، جو ایک سال پہلے کے 3.2 بلین امریکی ڈالر کے مقابلے میں واضح طور پر کم تھا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومتوں کی بدلتی ہوتی پالیسیوں کے پیش نظر بیرونی سرمایہ کار اکثر اپنا سرمایہ لگانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ عارف حبیب لیمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو نسیم بیگ کے بقول براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری FDI کا انحصار زیادہ تر طویل المیعاد منصوبوں پر ہوتا ہے اور کسی بھی حکومتی پالسی کی تبدیلی کی صورت میں ایسے منصوبوں میں ترمیم آسان نہیں ہوتی۔ دوسرے یہ کہ ایسے منصوبوں سے سرمایہ باآسانی نکالا بھی نہیں جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کار ایسے فیصلے کرنے سے پہلے بہت زیادہ سوچ بچار کرتے ہیں۔
پاکستانی معیشت کے تناظر میں ایک اور اقتصادی تجزیہ نگار اسد اقبال کی رائے یہ ہے کہ بیرون ملک سے طویل المدتی سرمایہ کاری کو پر کشش بنانے کے لئے حکومتی پالیسیاں واضح ہونی چاہیئں اور کسی بھی حکومت کو ایسے سرمایہ کاروں کے مفادات اور ذہنی تحفظات کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔
رپورٹ: عبدالستار
ادارت: مقبول ملک