1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی صوبہ پنجاب ۔ طالبان کی نئی منزل

تنویر شہزاد، لاہور16 اپریل 2009

سرحد اور بلوچستان کے بعد اب پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں طالبان کے حامیوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں نے عوامی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/HYJ6
گزشتہ کچھ عرصے میں پنجاب میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہےتصویر: AP

صوبے کو دہشت گردی سے بچانے کےلئے حکومت خفیہ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔ انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز کے ایڈیٹر اور ممتاز تجزیہ نگار نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کا علاقہ ماضی میں پرانی جہادی تظیموں کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے ۔ ان کے مطابق 2004 میں کالعدم قرار دئے جانے کے بعد ان جہادی تنظیموں کا رابطہ وزیرستان کے طالبان کے نیٹ ورک سے ہو گیا تھا جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتا چلا گیا۔ کچھ عرصہ پہلے تک ملتان، بہاولپور، بہاولنگر اور مظفر گڑھ سمیت جنوبی پنجاب کے کئی علاقوں سے جہادی تنظیموں کی سرگرمیوں کی اطلاعات ملتی رہی ہیں۔

Pakistan -Maulana Abdul Aziz
مولانا عبدالعزیز کی رہائی کو خاص اہمیت دی جا رہی ہےتصویر: AP

تجزیہ نگاروں کے مطابق جنوبی پنجاب کے ان علاقوں میں پچھلے تیس سالوں میں ایک خاص ذہنیت کے حامل جو مذہبی لوگ تیار ہوتے رہے ہیں ان میں طالبان کے لیئے ہمدردی کے جذبات بہت نمایاں تھے۔ نجم سیٹھی کے بقول ممبئی بم دھماکوں کے حوالے سے گرفتار ہونے والے نوجوان اجمل قصاب کا تعلق بھی لاہور سے کوئی ایک سو پچاس کلو میٹر دور واقع جنوبی پنجاب کے ایک علاقے سے ہے۔

اگرچہ سب سے زیادہ دینی مدرسے رکھنے والے علاقے جنوبی پنجاب کے کئی شہروں میں مبینہ طالبان کی طرف سے انٹر نیٹ کلبوں اور میوزک سینٹروں کے مالکوں اور حجاموں کو دھمکیاں ملنے کی اطلاعات آتی رہی ہیں لیکن پنجاب حکومت طالبان کی فروغ پذیر قوت سے لا علمی ظاہر کرتی رہی ہے۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب حکومت کے ترجمان پرویز رشید نے بتایا کہ پنجاب حکومت کے پاس اس قسم کی کوئی اطلاعات نہیں ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ طالبان جنوبی پنجاب میں کوئی وجود بھی رکھتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایک عرصے سے اس قسم کی باتیں ضرور کی جاتی رہی ہیں کہ طالبان میں جو لوگ ہیں ان کو جنوبی پنجاب سے افرادی قوت ملتی رہی ہے۔ لیکن ان کے بقول جنوبی پنجاب میں طالبان کے منظم ہونے کے حوالے سے پنجاب حکومت کے پاس کوئی اطلاعات نہیں ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پنجاب میں پولیس کو جہادی تنظیموں کے معاملات سے اکثر دور رکھا جاتا رہا ہے لیکن ملک کے سب سے بڑے صوبے کو دہشت گردی کے خطرات سے بچانے کے لئے اب حکومت مبینہ طور پر طالبان کے ساتھ خفیہ مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے۔

Pakistan, Erstürmung der Roten Moschee, Angehörige der Festgehaltenen
جنوبی پنجاب میں طالبان کے حوالے سے نرم گوشہ پایا جاتا ہےتصویر: AP

ممتاز تجزیہ نگار نجم سیٹھی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بیت اﷲ محسود ایک مدت سے یہ کہتے رہے ہیں کہ ان کے پاس دو تین سو خود کش بمبار موجود ہیں۔ ان دنوں زیادہ تر حملے اسلام آباد اور پنجاب میں ہو رہے ہیں۔ اب حکومت کی یہ کوشش ہو گی کہ بیت اﷲ محسود کو کسی امن کے معاہدے یا کسی اور مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کی کارروائیوں سے روکا جا سکے۔ ان کے مطابق لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کی رہائی اس سلسلے میں بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔ نجم سیٹھی کے مطابق اب ایجنسیاں مولانا عبدالعزیز کو بیت اﷲ محسود کو نیوٹرالیز(Neutrilize) کرنے کے لئے استعمال کریں گی اور بیت اﷲ محسود کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی جائے گی کہ وہ اپنی توجہ پنجاب یا پاکستان سے ہٹا لیں اور اگر وہ کوئی کارروائی جاری رکھنا ہی چاہتے ہیں تو پھر وہ اپنی بندوقوں کا رُخ اپنے ہم وطنوں کی بجائے اپنے دشمنوں کی طرف کر لیں۔