پاکستانی صوبہ سرحدمیں دہشت گردی کی تازہ لہر
25 نومبر 2008گزشتہ ایک ہفتہ سے پے درپے سرحد کے متعدد اضلاع کے مذہبی مقامات کونشانہ بنایا گیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان، ھنگو، پشاور، کرم ایجنسی، باجوڑ ایجنسی اورکئی دیگرعلاقوں میں مساجد اور امام بارگاہوں سمیت مذہبی شخصیات کونشانہ بنایا گیا۔ تسلسل سے رونما ہونے والے ان واقعات سے یہ خدشہ بڑھ گیاہے کہ خطے میں شدت پسندی کے بعد فرقہ واریت کی آگ بھڑکائی جارہی ہے۔
سرحد کے سینئر صوبائی وزیر بشیر بلور بھی ان دھماکوں اورقتل کے واقعات کو صوبے میں فرقہ واریت پھیلانے کاتسلسل قراردیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے کی سازش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے ڈیرہ اسماعیل خان اورپھرھنگو میں ہونے والے حالیہ واقعات سے لگتا ہے کہ صوبہ میں مذہبی منافرت کو ہوا دی جا رہی ہے بشیر بلور نے مذید کہا :’’ ہم چاہتے ہیں کہ ہم سب بھائیوں کی طرح ایک ساتھ رہیں لیکن کچھ قوتیں یہاں بدامنی پھیلا نے کے درپے ہیں، ہم اس کی بھرپورمذمت کرتے ہیں ہم کوشش کررہے ہیں کہ ایسے عناصر کو گرفتار کروا کے کیفر کردارتک پہنچایا جائے۔‘‘
عوام صوبہ سرحد اورقبائلی علاقوں میں مذہبی مقامات اور شخصیات کو نشانہ بنانے کے پے درپے واقعات کومنظم سازش کاحصہ قراردیتے ہیں اوراسی وجہ سے محرم الحرام سے قبل صوبہ سرحد اورقبائلی علاقوں میں مذہبی مقامات کے آس پاس سیکورٹی بڑھانے اورکیمرے لگانے کامطالبہ کررہے ہیں ۔ صوبائی دارالحکومت پشاورمیں امام بارگاہ میں ہونے والے بم دھماکہ کے بعد شہر بھر کی مساجد اور امام بارگاہوں میں سیکورٹی سخت کردی گئی۔ مذہبی مقامات کے آس پاس سادہ کپڑوں میں سیکورٹی اہلکار تعینات کردیئے گئے۔ شہر کے تمام داخلی اورخارجی راستوں پرناکے لگائے گئے ہیں اور شہر میں داخل ہونے والی تمام گاڑیوں کی تلاشی لی جارہی ہے۔ تاہم ان اقدامات کے باوجود ضلع ھنگو اورملحقہ اورکرزئی ایجنسی میں نامعلوم افراد نے 9 افراد کوقتل کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ اورکرزئی، کرم ایجنسی اور ھنگو فرقہ وارانہ فسادات کے لحاظ سے حساس علاقے ہیں۔ کرم ایجنسی میں گزشتہ 3 سالوں سے جاری فرقہ وارانہ فسادات میں ہزاروں لوگ مارے جاچکے ہیں۔