پارٹیکل فزکس پر امریکی برتری کا دور ختم
27 ستمبر 2011چار کلومیٹر طویل ٹیواٹرون کولائیڈر گزشتہ 25 برس سے ایٹمی ذرات کو ٹکرا کر ان پر تحقیق کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ یورپین سنٹر فار نیوکلیئر ریسرچ (CERN) کی طرف سے تیار کردہ دنیا کا سب سے بڑا لارج ہاڈران کولائیڈر فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر زیر زمین تعمیر کیا گیا ہے۔ LHC کی لمبائی 27 کلومیٹر ہے اور اس کی تعمیر کے بعد ٹیواٹرون کی اہمیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی جس کے باعث اس ایٹم سمیشر کو بند کیا جا رہا ہے۔ لارج ہاڈران کولائیڈر اور سرن ریسرچ سنٹر کو مشترکہ طور پر 20 رکن ممالک نے تیار کیا ہے۔
امریکہ جو پارٹیکل فزکس پر ریسرچ کے حوالے سے دنیا میں سبقت رکھتا تھا اور نت نئی ایجادات کے حوالے سے سبقت رکھتا تھا، تاہم اب یہ بات مشکل دکھائی دیتی ہے کہ امریکہ میں اب ایک بڑے پارٹیکل کولائیڈر کی تعمیر کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں۔ کیونکہ نہ صرف ایسے کسی منصوبے کی تیاری پر بہت زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے بلکہ اسے چلانے کے لیے بھی مستقل بنیادوں پر فنڈز کی ضرورت پڑتی ہے۔
تاہم اب امریکی ماہرین فزکس کے مطابق وہ نسبتاﹰ کم خرچ مگر مخصوص منصوبوں پر کام کریں گے۔ جبکہ ایسے منصوبے جن کے لیے طاقتور پارٹیکل کولائیڈر کی ضرورت ہو وہ سرن کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
ٹیواٹرون کولائیڈر چلانے والے ادارے فرمی نیشنل ایکسلریٹر لیبارٹری (Fermi National Accelerator Laboratory) کے ڈائریکٹر پیئر اوڈونے Pier Oddone کہتے ہیں: ’’ہماری شعبے میں اگر ہمارے پاس موجود کسی سہولت سے زیادہ بہتر سہولت یا مشین تیار ہوجائے تو ایسا نہیں ہوتا کہ ہم افسوس سے ہاتھ ملنے لگیں۔‘‘ اوڈونے کے بقول: ’’بعض اوقات بڑی دریافتیں بہت چھوٹے منصوبوں میں بھی ہوجاتی ہیں۔‘‘
ٹیواٹرون کی بندش ایک ایسی وقت عمل میں آ رہی ہے جب سائنس اور تحقیق کے حوالے سے امریکہ کے لیے کچھ زیادہ بہتر حالات نہیں ہیں۔ امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کی طرف سے رواں برس جولائی میں اپنی آخری پرواز خلا میں روانہ کی گئی جس کے بعد شٹل پروگرام بند ہوگیا۔ اس وقت بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک جانے کے لیے امریکہ کو روسی خلائی جہاز سویوز پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
ٹیواٹرون کی مدد سے کیے جانے والے تجربات کی فہرست کافی طویل ہے۔ سرن کے ڈائریکٹر جنرل رالف ہوئیر کہتے ہیں: ’’ٹیواٹرون نے پارٹیکل فزکس کے میدان میں ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔‘‘ ہوئیر کے مطابق کائنات کے راز جاننے کے لیے بنیادی تجربات کے حوالے سے ٹیواٹرون کی مدد سے اہم معلومات حاصل ہوئیں۔
یہاں کیے جانے والے تجربات کی مدد سے جو سب سے اہم ایجاد ہوئی وہ طبی تشخیص کے لیے ایم آر آئی یا ’میگنیٹک ریزونینس ایمیجنگ‘ مشین کی تیاری ہے۔
فرمی لیب میں ان دنوں کیے جانے تجربات میں ڈارک انرجی کیمرے کی تیاری بھی ہے۔ یہ کیمرہ کسی بھی اور ٹیلی اسکوپ کی نسبت کہکشاں کو زیادہ رفتار سے جانچ سکتا ہے۔ اس کیمرے کی تیاری کا مقصد یہ جاننا ہے کہ کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار کم ہونے کی بجائے بڑھتی کیوں جا رہی ہے۔
اس کے علاوہ یہاں کے محققین دنیا کی طاقتور ترین نیوٹرینو بیم تیار کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں، جس سے اس بات کا جواب مل سکتا ہے کہ کائنات میں اینٹی مَیٹر یعنی ضد مادہ کے مقابلے میں مَیٹر یعنی مادہ زیادہ کیوں ہے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: شامل شمس