پائریٹس پارٹی کی فتح پر جرمن سیاست میں سنسنی
21 ستمبر 2011جرمنی میں پائریٹ پارٹی پانچ سال قبل سوئيڈن کی ايک ايسی ہی جماعت کی طرز پر قائم کی گئی تھی۔ شروع ميں اس کے اراکين کا مقصد خصوصاً انٹرنيٹ پر اطلاعات، موسيقی اور فلموں کا آزادانہ تبادلہ تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس پارٹی کی طرف سے حکومت چلانے اور لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے نقطہ نظر سامنے آنے لگا۔
اتوار کے روز ہونے والے صوبائی انتخابات میں اس جماعت نے نو فیصد ووٹ حاصل کرکے ایک طرح سے جرمن سیاست میں سنسنی سی پھیلا دی ہے۔ برلن کی صوبائی اسمبلی میں کُل 130 نشستیں ہیں اور ابتدائی اندازوں کے مطابق ان میں سے 15 سیٹیں پائریٹ پارٹی کے حصے میں آئیں گی۔
پائریٹ پارٹی نوجوان اور بظاہر نا تجربہ کارمگر تخليقی صلاحيتوں کے مالک لوگوں کی جماعت سمجھی جاتی ہے۔ پارٹی کے سربراہ آندرياس باؤم کی عمر 33 برس ہے۔ وہ ٹیلی کام انجینئر ہيں۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ اس جماعت کو ووٹ دینے والے زیادہ تر لوگ 30 برس سے کم عمر کے ہیں۔
یہاں بعض جرمن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پائریٹ پارٹی کی یہ کامیابی دراصل موجودہ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کے خلاف نوجوانوں کا احتجاج ہے۔
پائریٹس پارٹی کے منشور کو اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہےٹرانسپیرنسی یا شفافیت۔ مثال کے طور پر یہ جماعت چاہتی ہے کہ بذریعہ آن لائن تمام اعداد وشمار اور انتظامی معاملات تک لوگوں کو رسائی حاصل ہو۔
پائریٹس یہ بھی چاہتے ہیں کہ حکومت کی تمام پالیسیز آن لائن ووٹنگ کے ذریعے طے کی جائیں جسے وہ لیکوئڈ ڈیموکریسی کا نام دیتے ہیں۔ وہ کم از کم تنخواہ بھی فکس کرانا چاہتے ہیں اور اس کے علاوہ ان کے منشور میں بغیر ٹکٹ بسوں میں سفر کرنے کو جرم قرار نہ دینے اور وِیڈ یا میری یوانا کے استعمال کی اجازت دینے جیسے معاملات بھی شامل ہیں۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: عدنان اسحاق