ٹوکیو کانفرنس: افریقہ کی ترقی کی رفتار بڑھانے پر اتفاق
30 مئی 2008کانفرنس میں زیرِ بحث دیگر موضوعات میں خوراک کا عالمی بحران سرِ فہرست رہا۔ ٹوکیو انٹرنیشنل کانفرنس میںچالیس ممالک کے نمائندوں نےعالمی سطح پر خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے متاثرغریب طبقے کی مدد کے لئے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
عالمی بنک اور اقوامِ متحدہ کی مختلف ایجنسیوں کے مطابق مناسب معاونت ملنے کی صورت میں ہی افریقی ممالک خوراک کے بحران پر قابو پاسکیں گے۔ ابھی حال ہی میں کئی افریقی ممالک میں خوراک کے بحران کے باعث فسادات رونما ہوئے تھے۔
ٹوکیو کانفرنس میں فوڈ کرائسس کےعلاوہ موجودہ صدی میں افریقہ سے متعلق ترقیاتی مقاصد، امن اور جمہوریت کے فروغ کے لئے اقدامات اور موسمیاتی تبدیلی جیسے موضوعات پر بھی سیر حاصل بحث ہوئی۔
کانفرنس آن افریقن ڈیویلپمنٹ کے دوران جاپان نے افریقی ممالک کو فراہم کی جانے والی جاپانی امداد اور نجی شعبوں میں سرمایہ کاری‘ دونوں کو دوگنا کرنے کا وعدہ کیا۔ اس کے علاوہ جاپان نے اس تین روزہ اجلاس میں افریقہ میں خوراک کی پیداوار کے حوالے سے اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
اس کانفرنس کے انعقاد کے لئے عالمی بنک اور اقوامِ متحدہ نے جاپانی حکومت کے ساتھ اشتراکی تعاون کیا تھا۔ ٹوکیو انٹرنیشنل کانفرنس آن افریقن ڈیویلپمنٹ کا آغاز پندرہ برس قبل انیس سو ترانوے میں ہوا تھا۔
چین اور جاپان‘ افریقہ میں اپنے تجارتی اثرورسوخ کو وسعت دینے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ دریں اثناء افریقی ممالک کے سفارتکاروں کا کہنا ہے ایشیائی طاقتوں کی جانب سے مختلف شعبوں میں تعاون کی پیشکش خطے کے لئے نہایت سود مند ثابت ہو رہی ہے۔ چین نے حال ہی میں افریقی ممالک کے قدرتی وسائل کے متعلق کئی کاروباری معاہدے کئے ہیں۔ اس سے قبل چین کی میزبانی میں ہونے والی افریقن کانفرنس میں اڑتالیس افریقی ممالک نے شرکت کی تھی۔ بیشتر افریقی سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ افریقہ کے حوالے سے چینی اور جاپانی موقف بالکل مختلف ہیں۔ افریقی سفارتکاروں کے مطابق جاپان کی توجہ اقتصادی ڈھانچے اور صحتِ عامہ کے لئے امداد اور قرضوں کی فراہمی پر مرکوز ہے۔ جبکہ چین سرکاری سطح پر جاری منصوبوں میں مدد فراہم کرتا ہے۔ کینیا کے سفارتکار کا کہنا ہے کہ چینی اور جاپانی امداد کا موازنہ ایک غیر منصفانہ فعل ہو گا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ افریقی ممالک کو امدادی ممالک میں ایک ایسے ملک کے اضافے سے خوشی ہو گی جسے وہاں جاری کرپشن اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اعتراض نہ ہو۔