يورپی يونين کی بارڈر سکيورٹی ايجنسی ميں وسعت زير غور
14 دسمبر 2015يورپی کميشن کی خواہش ہے کہ نئی يورپی بارڈر اينڈ کوسٹ گارڈ ايجنسی کے ارکان کی تعيناتی کسی بھی رکن ملک ميں اس کی انتظاميہ کی اجازت کے بغير ہی ممکن ہو سکے۔ موجودہ قوانين کے مطابق بلاک کو متعلقہ ملک سے اس کی اجازت طلب کرنا ہوتی ہے تاہم نئی تجويز کے مسودے کے تحت يہ اختيارات بلاک ہی کے پاس ہونے چاہييں۔ يورپی ملک يونان کو لاتعداد مہاجرين کی آمد کے سبب بحرانی صورتحال کا سامنا ہے ليکن ايتھنز انتظاميہ اس سلسلے ميں يورپ سے مدد لينے ميں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی آئی ہے۔ يہ صورتحال مجوزہ اقدام کا ايک سبب بنی ہے۔
رواں برس ستمبر ميں يورپی کميشن کے صدر ژاں کلود يُنکر نے يورپی يونين کی بارڈر گارڈ فورس کے قيام کا عزم ظاہر کيا تھا۔ اس سلسلے ميں يورپی يونين کی بارڈز سکيورٹی ايجنسی فرونٹيکس کو کافی وسعت دينے کے حوالے سے منگل پندرہ دسمبر کے روز ايک منصوبہ پيش کيا جانا ہے۔ کميشن کے ايک ترجمان نے بتايا، ’’ہم يہ سمجھتے ہيں کہ موجودہ صورتحال ميں کچھ کر دکھانے کا ارادہ رکھنا جائز ہے۔‘‘ انہوں نے اميد ظاہر کی کہ اس مجوزہ عمل کو رکن رياستوں کی حمايت حاصل ہو سکے گی۔
بارڈر گارڈز ميں توسيع کے منصوبے کا مسودہ اور شامی پناہ گزينوں کی ترکی سے يورپی يونين براہ راست منتقلی کے بارے ميں بھی ايک تجويز منگل کو پيش کی جائے گی۔ بعد ازاں برسلز ميں دو زور بعد ہونے والے سربراہی اجلاس ميں ان پر تفصيلی بحث متوقع ہے۔ يورپی اہلکاروں کے مطابق فرونٹيکس کے مستقل عملے کی تعداد ايک ہزار ہو جائے گی، جن کی موجودہ تعداد صرف چار سو ہے۔ اس کے علاوہ ايک نئے ’رٹرنز آفس‘ کو يہ اختيار حاصل ہو گا کہ وہ پناہ کے ناکام درخواست دہندگان کو ملک بدر کر سکے۔
يورپی سطح پر کئی سينئر اہلکاروں کا ماننا ہے کہ یونین کی بيرونی سرحدوں کا تحفظ بڑھانے کے معاملے ميں کوتاہی کے نتيجے ميں بلاک کے مزيد ممالک اپنی انفرادی سرحدوں پر کنٹرول شروع کر سکتے ہيں، جس سبب شينگن زون خطرے ميں پڑ سکتا ہے اور فرانس کی نيشنل فرنٹ جيسی يورپی يونين مخالف قوتيں زور پکڑ سکتی ہيں۔
فرانس اور جرمنی جيسے بڑے ممالک اس ضمن ميں يورپی يونين کے اختيارات ميں اضافے کے حق ميں ہيں تاہم ديگر يورپی رہنما اسی ہفتے جمعرات کو ہونے والی سمٹ ميں اس حوالے سے اعتراضات کا اظہار کر سکتے ہيں۔ ايک يورپی سفارت کار نے کہا، ’’اس منصوبے کو اکثريتی رکن رياستيں کی مخالفت کا سامنا ہو گا۔‘‘ ان کے بقول ايسا کوئی حل رکن رياستوں کے ذاتی قابليت اور اندرونی معاملات ميں دخل اندازی کے مساوی ہو گا۔