يورو زون کو مستحکم کرنے کی ايک اور کوشش
9 دسمبر 2011جرمنی اور فرانس نے يورپی يونين کی سربراہی کانفرنس ميں ابتدا ميں يہ کوشش کی تھی کہ يورپی معاہدوں ميں ترميم کے ليے يونين کے تمام 27 رکن ممالک کے درميان اتفاق رائے ہو جائے۔ ليکن جب خاص طور پر برطانيہ کی مخالفت کی وجہ سے ايسا نہيں ہو سکا تو انہوں نے يہ فيصلہ کيا کہ يورو زون کے 17 ممالک اور اس زون ميں اب بھی شامل ہونے کے متمنی يورپی يونين کے چھ ممالک کے درميان ايک الگ معاہدہ کيا جائے گا۔
جرمنی اور فرانس کی تجاويز کے مطابق يہ فيصلہ کيا گيا کہ يورو زون کے ہرملک پر رياستی قرض لينے کی ايک حد کی پابندی لازمی ہو گی اور اس حد سے زيادہ قرض لينے والے ملکوں پر خود بخود پابندياں لگ جائيں گی۔ يہ فيصلہ بھی کيا گيا کہ يورو زون کے مستقل امدادی فنڈ کو وقت مقررہ سے پہلے سن 2012 ہی ميں قائم کر ديا جائے گا۔
يورپی يونين کے ممالک بين الاقوامی مالياتی فنڈ آئی۔ ايم۔ ايف کو 200 ارب يورو کے قرضے بھی ديں گے تاکہ وہ ان کے ذريعے يورپی يونين کے مشکلات ميں پھنسے ہوئے ممالک کی مدد کر سکے۔ يورو مالياتی بانڈز جاری نہيں کيے جائيں گے۔ اس تجويز کی مخالفت خاص طور پر جرمنی کی طرف سے ہو رہی تھی۔
يورپی يونين کے معاہدوں ميں ترميم کی جرمن فرانسيسی تجويز برطانيہ کی مخالفت کی وجہ سے ناکام ہو گئی، جو اپنی قومی مالياتی منڈی کے ليے خصوصی تحفظ کا مطالبہ کر رہا تھا۔ فرانسيسی صدر سارکوزی نے کہا: ’’ہم اپنے برطانوی دوستوں کی رائے کا احترام کرتے ہيں۔ ليکن ايک طرف تو يورو زون سے الگ رہنا اور دوسری طرف يورو سے متعلق تمام فيصلوں ميں شرکت کا مطالبہ، يہ عجيب بات ہے۔‘‘
دوسری طرف برطانوی وزير اعظم کيمرون نے کہا: ’’ہم کبھی بھی يورو کرنسی رائج نہيں کريں گے۔ ہم کبھی اپنی خود مختاری سے دستبردار نہيں ہوں گے، جس سے مالی يونين ميں شامل ہونے والے ملکوں کو دستبردار ہونا پڑے گا۔‘‘
چاہے يورو زون کو بحران پر قابو پانے ميں کاميابی ہو يا نہ ہو، اب يورپی يونين ميں تقسيم اوراختلافات ميں اور شدت پيدا ہو جائے گی۔
رپورٹ: کرسٹوف ہاسل باخ / شہاب احمد صديقی
ادارت: عصمت جبيں