وینزویلا میں جیلوں کے مسئلے کا ’متنازعہ حل‘
9 اگست 2011دراصل جنوبی امریکہ کی اس ریاست کی جیلوں کی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ وہاں تقریباﹰ پچاس ہزار افراد قید ہیں جبکہ جیلوں میں گنجائش اس تعداد کے ایک تہائی سے بھی کم کے لیے ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک تجزیاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ وینزویلا میں بدعنوانی عروج پر ہے جبکہ جیلوں کے بہت سے بلاکس کا انتظام مسلح قیدیوں کے ہاتھوں میں ہے۔
وینزویلا کا یہ منصوبہ صدر ہوگو چاویز کے دوبارہ منتخب ہونے کی راہ میں رکاوٹ بھی بن سکتا ہے، کیونکہ شہری عدم تحفظ کو اپنی تشویش کی اولین وجہ قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئندہ برس کے صدارتی انتخابات میں فاتح جو بھی رہے گا، اسے ووٹروں کو یہ یقین دہانی کرانا ہو گی کہ نئی حکومت جرائم پر قابو پا سکتی ہے۔ تاہم قیدیوں کی قبل از وقت رہائی اس ہدف کے حصول کو مشکل بھی بنا سکتی ہے۔
تینتالیس سالہ شہری ایمنڈا لناریس کے مطابق ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اندھیرا ہونے کے بعد کاراکس کی سڑکوں پر نہ نکلیں۔ انہوں نے کہا: ’’باہر نکلنا پہلے ہی بہت خطرناک ہے۔ اب ایسے اقدام سے تو حکمران ہمیں مار ہی ڈالنا چاہتے ہیں۔‘‘
قیدیوں کی قبل از وقت رہائی کا معاملہ جون میں اس وقت سامنے آیا تھا، جب ایک جیل میں خطرناک تصادم پر قابو پانے کے لیے ہزاروں فوجیوں کو وہاں دھاوا بولنا پڑا تھا۔ اس کے باوجود قیدیوں کا ایک گروپ تقریباﹰ ایک مہینے تک بے قابو رہا تھا۔
اس کے رد عمل میں چاویز نے جیلوں کی نئی وزارت تشکیل دی، جس کی پہلی وزیر آئرِس واریلا جلد ہی متنازعہ شخصیت بن گئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بیس ہزار قیدی خوامخواہ جیلوں میں پڑے ہیں، وہ معاشرے کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہیں اور انہیں رہا کر دیا جانا چاہیے۔
واریلا نے یہ کہتے ہوئے اپوزیشن کو بھی ناراض کر دیا تھا کہ اگر کسی جج نے ان کے کاموں میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی تو وہ سپریم کورٹ کے سربراہ سے کہہ کر اسے برطرف کروا دیں گی۔
اس بحث اور اس معاملے پر پائی جانے والی تشویش کے باوجود سب متفق ہیں کہ جیلوں کے نظام میں اصلاحات لائے جانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایسا ملک، جس کا شمار جرائم کی بلند شرح والی ریاستوں میں ہوتا ہے، وہاں ہزاروں قیدیوں کو رہا کرنا کٹھن کام ہو گا۔
رپورٹ: ندیم گِل / روئٹرز
ادارت: مقبول ملک