’وہ جادو گرنیاں نہیں، بے گناہ عورتیں تھیں‘
12 جون 2019ہارٹموٹ ہیگیلر ایک ایسے مشن پر روانہ ہیں جو بظاہر انتہائی کٹھن اور مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ پیچیدگیوں کا حامل بھی ہے۔ وہ جرمنی کے طول و عرض پر یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ جن پچیس ہزار عورتوں کو 'جادوگرنیاں‘ قرار دے کر موت کی سزا دی گئی تھی، وہ معصوم و بے گناہ تھیں اور اُن پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد اور من گھڑت تھے۔
ہارٹموٹ ہیگیلیر ایک ریٹائرڈ پادری اور مسیحی دین کے سابق استاد بھی رہ چکے ہیں۔ اپنے دینی اور دنیاوی علم کی بنیاد پر وہ یہ مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپ اور جرمنی میں جن عورتوں کو 'جادوگرنیاں‘ قرار دیا گیا تھا، اُن سے شدید اذیت اور تشدد کے بعد اعتراف جرم بھی کرایا گیا۔
ہیگیلیر نے یہ تحریک سن 2011 سے شروع کر رکھی ہے۔ وہ اپنے شاگردوں کے سوالات کے بعد ہی اس مناسبت سے تحقیقی عمل میں مصروف ہوئے اور اس حقیقت سے آگاہ ہوئے کہ جادوگرنی قرار دے کر ہلاک کی جانے والی عورتوں کو شفاف مقدمہ بھی نصیب نہیں ہوا تھا۔ ان خواتین کے مقدموں کی شنوائی کیتھولک یا پروٹیسٹنٹ چرچ کی عدالتوں میں نہیں بلکہ لادین یا سیکولر عدالتوں میں ہوئی تھی۔
ہیگیلیر کے مطابق پندرہویں سے اٹھارہویں صدی کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کے حوالے سے ایک تاثر یہ ہے کہ ہلاک کی گئی سبھی عورتیں تھیں اور یہ غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیس سے تیس فیصد خواتین تھیں اور بقیہ ہلاک کیے جانے والے مرد اور بچے تھے۔ ہیگیلیر کے مطابق یہ ایک انتہائی بھیانک عدم انصاف کا سلسلہ تھا۔
سابق پادری اپنے مشن کے دوران عام جرمن شہریوں کو یقین دلانے کی کوششوں میں ہیں کہ یہ مقدمے عام لوگوں کی شکایت پر شروع کیے گئے تھے۔ یہ لوگ اپنی ذاتی دشمنیوں اور مخالفت کے تناظر میں برگر مائسٹر یا شہر کے ناظم کو شکایت لگا کر مقدمہ شروع کرا دیتے تھے۔ ہیگیلر نے بتایا کہ کئی علاقوں میں عدالتیں خواتین یا مردوں کو کوئی سزا نہیں دینا چاہتی تھیں لیکن عوامی دباؤ کے تحت ایسا کیا گیا۔
جرمنی کے شہروں بامبرگ اور ورٹسرگ میں سینکڑوں خواتین کو 'جادوگرنیاں‘ قرار دے کر موت کی گھاٹ اتار دیا گیا۔ کئی دیہات کی ساری آبادی جادو کے زیر اثر قرار دے کر صاف کر دی گئی۔ کئی جرمن علاقوں میں بغیر کسی عدالتی کارروائی کے بھی لوگوں کو ہلاک کیا گیا۔ ایسے ہلاک کیے جانے والے افراد پر یہ جرم عائد کیا گیا کہ وہ شیطان سے مشاورت کے مرتکب ہوئے تھے۔
ڈیوڈ کراس لینڈ (عابد حسین)