وفاقی حکومت کا ایم کیو ایم کے استعفے منظور نہ کرنے کا فیصلہ
13 اگست 2015مولانا فضل الرحمان سے کہا گیا ہے کہ وہ ایم کیو ایم سے بات چیت کریں اور اس پارٹی کو موجودہ حالات میں پارلیمان کی کمزوری کا سبب بننے کی بجائے اس کی مضبوطی میں اپنا کردار ادا کرنے پر راضی کریں۔
اسلام آباد میں وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والے ایک مشاورتی اجلاس میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور مولانا فضل الرحمان نے شرکت کی، جس میں خورشید شاہ نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا کہ ایم کیو ایم کو منانے کا ٹاسک مولانا فضل الرحمان کو دیا جائے۔
ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ان کا موقف ایم کیو ایم کے استعفوں پر وہی ہے، جو تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں پر تھا، یعنی استعفے اگر اسپیکر کو دے دیے گئے تو وہ منظور ہوگئے۔ لیکن حکومت کا موقف ہے کہ بعض ایسے عدالتی فیصلے بھی ہیں، جن کی رو سے صورت حال مولانا کے موقف کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ لہٰذا اس بارے میں قانونی ماہرین سے مشاورت کی جائے۔
ملک کے اکثر سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کی اکثریت بھی اس بات پر متفق دکھائی دیتی ہے کہ ایم کیو ایم کے اراکین کے استعفے منظور نہیں ہونے چاہیئں۔ سینیئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ آئندہ دو ماہ میں کراچی سمیت سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہونا ہے۔ اس طرح کی صورت حال میں اتنے بڑے پیمانے پر ضمنی انتخابات درست فیصلہ نہیں ہوگا۔ سندھ میں صوبائی اسمبلی کی 51 نشستوں پر ضمنی انتخابات تقریباﹰ ایک منی الیکشن ہوں گے۔
بعض تجزیہ کاروں کی رائے میں ایم کیو ایم کے استعفے بیرونی سے زیادہ اندرونی مسائل کا شاخسانہ ہیں اور مبینہ ’مائنس الطاف‘ فارمولے کو ناکام بنانے کے لیے استعفوں کی چال چلی گئی ہے۔ مگر معروف صحافی حسن نثار کہتے ہیں کہ استعفوں سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ایم کیو ایم الطاف حسین کی قیادت میں پہلے کی طرح متحد ہے۔
معروف تجزیہ کار ایئر مارشل (ریٹائرڈ) شہزاد چوہدری بھی ایم کیو ایم کے استعفوں کی منظوری کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں جمہوریت کی مضبوطی پارلیمانی سیاست سے مشروط ہے۔
اس وقت سیاسی صورت حال میں بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور مولانا فضل الرحمان نے ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے خود کو سونپی گئی ذمہ داری انجام دینے کے لیے تیزی سے کام شروع کردیا ہے۔
معتبر ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے ڈاکٹر فاروق ستار کو مشورہ دیا ہے کہ وہ استعفے واپس لے کر پارلیمان میں رہتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔ مگر فی الحال فاروق ستار نے استعفوں کی ممکنہ واپسی سے متعلق کوئی عندیہ نہیں دیا۔ ان کا کہنا یہی ہے کہ پہلے تحفظات دور کیے جائیں، پھر استعفوں کی واپسی پر بات ہو گی۔
سندھ حکومت ان استعفوں کو منظور کرنے کی بجائے ’کچھ وقت حاصل کرنے کی پالیسی‘ پر عمل پیرا ہے۔ اسپیکر آغا سراج درانی کہتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں پہلے کبھی ارکان نے استعفے نہیں دیے۔ لہٰذا مکمل چھان بین ہوگی کہ استعفے اصل لوگوں ہی کے ہیں اور انہوں نے خود دیے ہیں یا ان سے لیے گئے ہیں۔ ان کے بقول اس مقصد کے لیے ان ارکان اسمبلی کو بلایا بھی جا سکتا ہے۔
ایم کیو ایم نے کراچی میں جاری آپریشن کی آڑ میں ’سیاسی انتقام کا نشانہ‘ بنائے جانے کا الزام عائد کرتے ہوئے اسمبلیوں اور سینیٹ سے استعفے دیے ہیں۔ ایم کیو ایم ابتدا ہی سے مطالبہ کرتی آئی ہے کہ کراچی آپریشن کی مانیٹرنگ کے لیے ایک غیر جانبدار کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیئے اور اب تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ حکومت نے ایم کیو ایم کے اس مطالبے پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کر دیا ہے۔ اگر ایم کیو ایم کا یہ مطالبہ مان لیا جاتا ہے تو قوی امید ہے کہ ایم کیو ایم ملکی پارلیمانی اداروں میں واپس لوٹ آئے گی۔