وسطی افریقی جمہوریہ: مسلمانوں کی جبری تبدیلی مذہب، ایمنسٹی
1 اگست 2015بنگوئی سے ملنے والی جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی یہ رپورٹ جمعہ اکتیس جولائی کے روز جاری کی۔ اس رپورٹ میں انسانی حقوق کی اس بین الاقوامی تنظیم نے کہا ہے کہ وسطی افریقی جمہوریہ کے مغربی حصے میں مقامی مسلمانوں کے جن آبائی علاقوں پر اب تک مسیحی ملیشیا گروپوں کو کنٹرول حاصل ہو چکا ہے، وہاں لوٹنے والے مسلمان شہریوں کو زیادہ تر یہ اجازت نہیں دی جا رہی کہ وہ اپنے مذہب اور اس کی تعلیمات پر کھلے عام عمل پیرا ہو سکیں۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملک کے مغربی حصے میں اپنے آبائی علاقوں کو لوٹنے والے ان مسلمانوں کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں بھی دی گئی ہیں۔ ڈی پی اے کے مطابق وسطی افریقی جمہوریہ زیادہ تر مسیحی تشخص والی ایک ایسی ریاست ہے، جو اس وقت سے مسلسل انتشار کا شکار ہے، جب وہاں پر مارچ 2013ء میں سیلیکا مسلم باغیوں نے کچھ عرصے کے لیے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ ملک تب سے ہی ایک ایسے خونریز تنازعے کا شکار ہے، جس کا بنیادی پس منظر مذہبی نوعیت کا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک خاتون ماہر جون مارینر کہتی ہیں، ’’جب سے ’اینٹی بالاکا‘ ملیشیا گروپوں نے وسطی افریقی جمہوریہ کے مغربی حصے سے ہزارہا مسلمانوں کو جبری طور پر بے دخل کیا ہے، تب سے لے کر اب تک جو مسلمان وہاں بچے ہیں یا جو سینکڑوں دیگر واپس وہاں جا چکے ہیں، ان کے مذہبی تشخص کو طاقت کے زور سے دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔‘‘ ان متاثرہ علاقوں میں مقامی آبادی کے تحفظ کے لیے تعینات اقوام متحدہ کے امن دستوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
ایمنسٹی کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملک کے ان مغربی علاقوں میں مسلمانوں کو نہ تو عبادت کرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی وہ اپنے ایسے روایتی لباس پہن سکتے ہیں، جن سے ان کے مسلمان ہونے کی ظاہری طور پر شناخت ہو سکے۔
اس رپورٹ کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ماہرین نے علاقے کے بارہ دیہات کے دورے کیے اور مجموعی طور پر 85 افراد سے انٹرویو بھی کیے۔ وسطی افریقی جمہوریہ میں قریب ڈھائی سال سے جاری اس تنازعے کے باعث اب تک مجموعی طور پر قریب ایک ملین انسانوں کو ان کے آبائی رہائشی علاقوں سے جبراﹰ بے دخل کیا جا چکا ہے۔