’واپس ایران بھیجا جائے‘، تارک وطن برطانیہ سے تنگ آ گیا
24 ستمبر 2015خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ آرَش آریا نامی اس ایرانی باشندے نے کہا ہے کہ وہ برطانیہ نہیں رہنا چاہتا ہے کیونکہ وہ وہاں کے ماحول سے خوش نہیں ہے۔ مانچسٹر کے اس رہائشی کا کہنا ہے کہ وہ شہر کے لوگوں کے روکھے پن اور تشدد کی وجہ سے واپس اپنے ملک جانا چاہتا ہے۔ پچیس سالہ آریا نے مزید کہا کہ وہ گزشتہ دس برسوں سے برطانیہ میں ہے لیکن ابھی تک کوئی ملازمت بھی نہیں کر سکا ہے۔
پیر کے دن برطانوی پولیس کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا، ’’ انتہائی غم و غصے میں مبتلا ایک شخص نے خود کو پولیس کے حوالے کرتے ہوئے اس ملک میں اپنی حیثیت غیر قانونی بتائی اور کہا کہ وہ دس برسوں سے یہاں مقیم ہے۔‘‘ بتایا گیا ہے کہ اس شخص کو اس وقت گرفتار کر لیا گیا تھا، جب وہ پولیس سے مطالبہ کر رہا تھا کہ اسے ایران واپس بھیج دیا جائے، کیونکہ وہ غیر قانونی طور پر برطانیہ میں مقیم ہے۔
بعد ازاں تحقیقات سے معلوم ہوا کہ آریا کے پاس برطانیہ میں قیام کے قانونی کاغذات ہیں اور وہ غیر معینہ مدت کے لیے اس ملک میں رہائش اختیار کر سکتا ہے۔ آریا نے جمعرات کے دن ڈیلی میل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایرانی شہر شیراز واپس جانا چاہتا ہے، جہاں اس کے رشتہ دار رہتے ہیں۔ اس نے کہا، ’’مانچسٹر کے لوگ دوستانہ رویہ نہیں رکھتے ہیں۔‘‘
ڈیلی میل سے گفتگو کرتے ہوئے آریا نے مزید کہا، ’’میں نے لوگوں کے ساتھ خوش اسلوبی اور دوستانہ طریقے کے ساتھ پیش آنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ مجھ پر ہنستے رہے کیونکہ میں غیر ملکی ہوں۔ وہ مجھے عجیب و غریب نظروں سے دیکھتے رہے۔‘‘
اس خبر کے منظر عام پر آتے ہی برطانیہ میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ کچھ لوگوں نے آریا کے ساتھ ہمددری کا اظہار کیا تو کچھ نے اس کا مذاق بھی اڑایا۔ کچھ برطانوی شہریوں نے مذاق کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ آریا کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں کیونکہ اسے مانچسٹر کی بارش راس نہیں آئی ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ برطانیہ میں امیگریشن ایک حساس سیاسی معاملہ ہے۔ یورپ کو درپیش حالیہ مہاجرین کے بحران میں بھی برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی حکومت نے سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔ انہوں نے یورپی یونین کے اُس مجوزہ منصوبے کو بھی مسترد کر دیا ہے، جس کے تحت اٹھائیس رکن ممالک کا یہ بلاک ایک کوٹے کے تحت مہاجرین کو مختلف رکن ممالک میں آباد کرنا چاہتا ہے۔