واشنگٹن میں بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس
29 اپریل 2009واشنگٹن منعقدہ اس بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس میں دنیا کے 17 بڑے صنعتی ملکوں کے نمائندوں نے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات پر تبادلہ خیال کیا۔ اس کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے شرکاء کو بتایا کہ امریکہ ماحولیاتی آلودگی کے خلاف جدوجہد میں بھرپور حصہ لے گا۔
ہلیری کلنٹن نے کہا: "صدر اوباما، میں اور ہماری انتظامیہ موسمیاتی تبدیلی کو امریکی خارجہ پالیسی کا مرکزی پہلو تصور کرتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی اس وقت ہماری دنیا کے لئے ایک صاف اور واضح خطرہ ہے جو فوری توجہ کا طالب ہے۔ صدر اوباما اور ان کی انتظامیہ اس مسئلے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں اور ہم ضرور مناسب اقدامات اٹھائیں گے۔"
امریکی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ماحولیاتی تغیر بہت سی زندگیوں کو متاثر کررہا ہے اور خشک سالی اور سطح سمندر میں اضافے نے خوراک اور پانی کے ذخائر کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
اس کانفرنس میں امریکہ کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا، برازیل، برطانیہ، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، میکسیکو، روس، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا، ڈنمارک اور اقوام متحدہ اور یورپی کمیشن کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔
واشنگٹن کانفرنس میں شریک جرمن وزیر ماحولیات سگمار گابرئیل نے ماحولیات کے حوالے سے ہلیری کلنٹن کے بتائے گئےاقدامات کو خوش آئند قراردیا۔ کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ کے خطاب کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جرمن وزیر ماحولیات نے کہا: "امریکہ کی سیاسی قیادت تحفظ ماحول کی کوششوں میں ہمارا ساتھ دے رہی ہے۔ گذشتہ چار برسوں میں یہ صورت حال دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔"
تحفظ ماحولیات کے لئے سرگرم تنظیم گرین پیس کے نمائندے کیرول مفٹ نے اوباما انتظامیہ پرزور دیا کہ وہ عالمی ماحول کو بہتر بنانے کی کوششوں میں مزید اضافہ کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حوصلہ افزاء بات ہے کہ امریکہ اس مسئلے کے حل سے متعلق سنجیدہ نظر آرہا ہے۔
یہ کانفرنس دسمبر میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام عالمی ماحولیات سے متعلق کوپن ہیگن میں ہونے والے اجلاس کے سلسلے میں ایک اہم پیش رفت قرار دی جارہی ہے۔ کوپن ہیگن کانفرنس کا مقصد کیوٹو معاہدے کا متبادل تلاش کرنا ہے۔
اوباما انتظامیہ سے قبل بش حکومت نے ماحولیاتی تبدیلی کے کیوٹو معاہدے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے امریکی معیشت کے لئے ایک مہنگا سودا قرار دیا تھا۔