1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وادیء سوات کے پناہ گزینوں میں امداد پر عدم اطمینان

فرید اللہ خان، پشاور22 مئی 2009

ملاکنڈ ڈویژن میں عسکریت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن سے جہاں لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں، وہاں ہزاروں خاندان کرفیو کی وجہ سے گھروں میں محصور ہیں۔

https://p.dw.com/p/HvU1
مردان کے مقام پر سوات سے آئے ہوئے پناہ گزینوں کا ایک کیمپتصویر: AP

عارضی کیمپوں میں رہائش پذیر لوگ فوجی آپریشن اورحکومتی اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں۔ جہاں وہ اشیائے ضرورت کے فقدان کی شکایت کرتے ہیں، وہاں فوجی آپریشن کی سست روی کا بھی شکوہ کر رہے ہیں۔

بمباری اورگولہ باری کی وجہ سے دیر، سوات ، بونیر اور شانگلہ میں محصور لوگوں کے سروں پر موت کے سائے منڈلا رہے ہیں جبکہ کرفیوکی وجہ سے وہ اپنے مرنے والے عزیزوں کو گھروں کے اندر ہی دفنانے پرمجبور ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر جانور وں کے مرنے سے بدبو پیدا ہوگئی ہے، جو متعدد بیماریوں کاباعث بن رہی ہے۔

کیمپوں میں رہائش پذیر لوگ حکومتی پالیسیوں کوتنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ کبل سے خاندان کے بارہ افرادکے ساتھ نقل مکانی کرنیوالے فضل الرحمن کہتے ہیں کہ اگر اس مرتبہ بھی ملاکنڈ میں آپریشن ناکام ہوا تواس کے سنگین نتائج سامنے آئیں گے۔

اُن کا کہنا ہے کہ ملاکنڈ کے عوام نے بے پناہ قربانیاں دیں اور اب تک دے رہے ہیں لیکن ابھی تک اُنہیں روشنی کی کرن نظر نہیں آ رہی ہے: ’’ہمارے گھر تباہ اور مال مویشی ہلاک کئے گئے جبکہ ہمیں بے سرو سامانی میں علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ جو امداد دی جا رہی ہے، وہ بھی انتہائی ذلت آمیز طریقے سے دی جاتی ہے۔ یہ خیال نہیں رکھا جا رہا کہ لوگوں کی ضروریات کیا ہیں بلکہ اپنی مرضی مسلط کی جارہی ہے۔متاثرین کے نام پرجو اربوں ڈالر لئے جاتے ہیں، شاید اُس کا بیس فیصد بھی مستحق افراد تک نہیں پہنچایا جاسکے گا۔‘‘

اُن کا کہنا ہے کہ حکومت جن علاقوں سے عسکریت پسندوں کے نکالنے کے دعوے کررہی ہے، وہاں لوگوں کوبھیجنے سے قبل اُن کی بحالی کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔ اُن کے گھروں سمیت سکول، کالج، بینک، پولیس اسٹیشن اورانتظامی امور کے دیگر اداروں کی بحالی کیلئے ابھی سے اقدامات اٹھانے شروع کئے جائیں، بصورت دیگر وہاں امن کے قیام کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات بے کار ہونگے۔

Pakistan Flüchtlinge aus dem Swat Tal
مردان کے مہاجر کیمپ میں بچے اَشیائے خوراک کے حصول کے لئے قطار میں کھڑے ہیںتصویر: AP

پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے، جنہوں نے مختلف مواقع پر بھاری امداد وصول کی۔ 2005ء کازلزلہ ہو، سیلاب یا پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ، عالمی دنیا نے دل کھول کر پاکستان کی مدد کی ہے۔ قبائلی علاقوں کیلئے سال 2009-2008ءکے دوران دس ارب روپے سے زیادہ امداد دی گئی جبکہ عالمی اداروں کی جانب سے غیرسرکاری اداروں کی وساطت سے دی جانیوالی امداد اُس کے علاوہ ہے۔ قبائلی علاقوں کیلئےاربوں روپے کی امداد آئی ہے لیکن یہ علاقے آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ یہ امداد کہاں کہاں خرچ کی گئی، نہ تو کوئی سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ یہ بتاتا ہے اور نہ ہی امداد دینے والے ادارے اور ممالک اِس کی زحمت کرتے ہیں۔

اِسی دوران اقوام متحدہ نے ملاکنڈ ڈویژن کے متاثرین کیلئے54 ملین ڈالرز کی امداد کیلئے اپیل کی ہے۔ جرمن حکومت نے بھی ملاکنڈ ڈویژن کے متاثرین کیلئے دو ارب چالیس کروڑ روپے امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ، جاپان اورچین سمیت دنیا کے دس بڑے ممالک کے چالیس سے زیادہ امداد دینے والے اداروں نے بھی ملاکنڈ کے متاثرین کیلئے 224 ملین ڈالرز کی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔

غیرملکی امداد کے علاوہ پاکستان کے مخیر طبقے نے بھی کروڑوں روپے کی امداد دی ہے لیکن ملاکنڈ کے زیادہ تر متاثرین بدستور اشیائے ضرورت اور ادویات کیلئے ترس رہے ہیں۔ مبصرین کا کہناہے کہ کمی کسی چیز کی نہیں ہے، صرف حسن انتظام اور منصوبہ بندی کا فقدان ہے، جس میں صوبائی حکومت ناکام رہی ہے۔

کانجو سے پشاور آنے والے خالد خان کا کہنا ہے، اُن کا صرف ایک ہی مطالبہ ہےکہ اُن کے علاقے میں فیصلہ کن آپریشن کرنے کے بعد اُنہیں وہاں واپس جانے کا موقع دیاجائے، اُنہیں کسی بھی امداد کی ضرورت نہیں ہے۔ اُنہیں اپنے جنت نظیر علاقے میں جانے کیلئے وہاں صرف امن کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے علاقے میں بمباری اور گولہ باری سے تنگ ہیں۔

عسکری ذرائع کے مطابق ملاکنڈ ڈویژن میں جاری آپریشن میں اب تک گیارہ سو سے زیادہ عسکریت پسند ہلاک جبکہ تیس سے زیادہ گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ اسی طرح فوج کے بیس سے زیادہ افسران اورجوانوں نے بھی جان کی قربانی دی ہے۔

تاہم ملاکنڈ کے متاثرین اور سرحد کے عوام یہی سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیوں اب تک عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی میں کوئی نمایاں کامیابی سامنے نہیں آئی ہے۔ حکومت نے جس طرح نقل مکانی سے قبل کوئی انتظام کرنا گوارا نہیں کیا، اُسی طرح آپریشن کے خاتمے کے بعد متاثرین کی بحالی کیلئے بھی کوئی پالیسی ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ شاید اِس کی لئے ایک بار پھر عالمی اداروں ہی سے مدد طلب کی جائےگی۔