نیوزی لینڈ میں زلزلہ: ممکنہ زندہ افراد کی تلاش جاری
24 فروری 2011کرائسٹ چرچ کے زلزلے کے بعد امدادی کام جاری ہے اور باوجود اس کے کہ حکّام کا خیال ہے کہ بہت کم ہی لوگ شاید ملبے سے زندہ نکالے جا سکیں، امدادی کارکنوں نے ابھی تک امید کا دامن نہیں چھوڑا ہے۔
جمعرات کو ریکٹر اسکیل پر چھ اعشاریہ تین شدّت کے اس زلزلے کے نتیجے میں اب تک سو کے قریب افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور کرائسٹ چرچ اور اس کے گرد و نواح میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلی ہوئی ہے۔
نیوزی لینڈ کے وزیرِ اعظم جان کی کا کہنا ہے کہ گو کہ ملبے تلے افراد کے بچ جانے کی امید کم ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کو ڈھونڈ نکالنے کی کوششیں ترک کر دی جانی چاہییں۔
نیوزی لینڈ کی پولیس کے مطابق اٹھانوے افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی جا چکی ہے، جبکہ دو سو چھبیس افراد ابھی تک گمشدہ ہیں۔
امدادی کارکنوں نے ٹی وی اسٹیشن کی ایک عمارت اور ایک لینگوج اسکول میں کسی کے بھی بچے ہونے کے امکان کو رد کردیا ہے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان دو عمارتوں کے زمیں بوس ہونے سے کم از کم ایک سو بیس افراد ہلاک ہوئے ہوں گے۔
جمعہ کے روز امدادی کارکنوں نے تیس افراد کو ملبے سے نکال لیا تھا تاہم بدھ کو جن افراد کو زندہ نکالا گیا ہے ان کی تعداد بہت ہی کم ہے۔
پولیس منسٹر جوڈتھ کولنس کا کہنا ہے کہ وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ لینگویج اسکول میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر طالبِ علموں کا تعلق ایشیا سے تھا۔ جاپانی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ اس کے چھبیس شہری، جن میں زیادہ تر طلبہ ہیں، لاپتہ ہیں۔ امکان یہی ہے کہ وہ زلزلے سے تباہ ہونے والے اسکول کے طالبِ علم تھے۔
جاپانی امدادی سامان اور امدادی کارکن بھی نیوزی لینڈ پہنچ چکے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے حکّام کا کہنا ہے کہ یہ صرف نیوزی لینڈ کے لیے نہیں بلکہ یہ ایک بین الاقوامی سانحہ ہے۔
دوسری جانب شہر کی بجلی بحال کردی گئی ہے تاہم اب بھی زیادہ تر لوگوں کو پانی مشکل سے ہی مل پا رہا ہے۔ کرائسٹ چرچ کے ہزاروں مکین اپنے رشتہ داروں کے ہاں منتقل ہو چکے ہیں۔ بے گھر افراد کے لیے نیوزی لینڈ کی حکومت نے ایک کیمپ قائم کیا ہے اور ان کو باقاعدگی سے کھانے پینے کی اشیاء اور علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق