نمکین سمندری پانی سے میٹھے پانی کا حصول
29 اگست 2012ہم پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے تاہم ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جلد ہی ہماری دھرتی پر پانی اتنی مقدار میں ہو گا ہی نہیں کہ تمام انسانوں کے کام آ سکے۔ دوسری جانب ہماری زمین کا دو تہائی حصہ سمندری پانی سے ڈھکا ہوا ہے، ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ بدمزہ اور مضر صحت نمکین پانی سے نمک کو الگ کر کے اُسے میٹھے پانی میں بدل دیا جائے۔
اس کے ویسے تو بہت سے طریقے رائج ہیں لیکن جرمن ماہرین آج کل ایسے طریقے تلاش کرنے میں مصروف ہیں، جن کے ذریعے اس عمل کو زیادہ بہتر بنایا جا سکتا ہو۔ جرمن شہر بوخم کی روہر یونیورسٹی سے وابستہ فابیو لا مانسیا کا طریقہ ایک بیٹری کی طرز پر کام کرتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں:’’ہم کرنٹ استعمال کرتے ہیں۔ اس کرنٹ کے ذریعے پانی سے نمک نکالا جاتا ہے۔‘‘
سمندری پانی میں پایا جانے والا نمک سوڈیم کلورائیڈ جیسے مختلف معدنیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ معدنی ذرات منفی اور مثبت چارجز کے حامل ہوتے ہیں۔ کرنٹ کے ذریعے ان ذرات کو حرکت میں لا کر سمندری پانی سے الگ کیا جا سکتا ہے۔
سردست یہ تجربات بہت ہی چھوٹے پیمانے پر جاری ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ کرنٹ مدھم پڑتا جاتا ہے اور ذرات کے الگ ہونے کی رفتار بھی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ ابھی تک یہ محققین محض پچاس فیصد نمک سمندری پانی سے الگ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ فابیو لا مانسیا بتاتے ہیں:’’چنانچہ ہمیں کرنٹ دینے والے ان برقی مادوں کو زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور آج کل ہم اسی پر کام کر رہے ہیں۔ نمک کو الگ کرنے کی شرح کو پچیس فیصد سے بڑھا کر اٹھانوے فیصد تک لے جانے کی ضرورت ہے۔‘‘
اگر سمندری پانی سے 98 فیصد نمکیات الگ کر دیے جائیں تو وہ پینے کے قابل ہو جاتا ہے۔ آج کل پوری دنیا میں نمک کو الگ کرنے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے، اُس میں بڑے بڑے پمپ پانی کو انتہائی زیادہ دباؤ کے ساتھ ایسی باریک جالیوں پر پھینکتے ہیں، جو پانی کے قدرے چھوٹے سائز والے مالیکیولز کو تو گزرنے دیتی ہیں لیکن نمک کے قدرے بڑے ذرات کو روک کر الگ کر لیتی ہیں۔ اس طریقے میں مشکل یہی ہے کہ ایک تو اس پر بہت زیادہ توانائی خرچ ہوتی ہے اور دوسرے اس میں استعمال ہونے والی جالیوں کے خوراک بڑی جلدی بند ہو جاتے ہیں۔
B. Osterath/aa/km