مینگورہ میں امن ریلی
18 فروری 2009پاکستان کی شورش زدہ وادیء سوات میں آج بدھ کے روز ہزاروں افراد نفاذ شریعت کے معاہدے کی حمایت میں ایک ریلی میں شریک ہوئے۔ ریلی کے شرکا نے سیاہ پرچم اٹھا رکھے تھے۔ اس موقعے پر وردی میں ملبوس کسی حکومتی سیکیورٹی اہلکار کو نہیں دیکھا گیا۔ ریلی کی قیادت کرنے والے صوفی محمد کے قریبی ساتھیوں نے انہیں ایک حصار میں لے رکھاتھا۔ مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس ریلی میں شریک افراد بھی اسلحے کی نمائش نہیں کر رہے تھے۔
صوفی محمد تحصیل مٹہ کے کسی نامعلوم مقام پر مقامی طالبان کے سربراہ مولانا فضل اللہ سے ملاقات کریں گے۔ مولانا فضل اللہ ، صوفی محمد کے داماد بھی ہیں۔ معاہدے کے تحت طالبان کے مکمل اسلحہ پھینکنے تک صوفی محمد اپنے حامیوں کے ہمراہ مینگورہ ہی میں قیام کریں گے۔
مینگورہ میں آج بھی چہل پہل کا منظر ہے اور تقریبا تمام بازار، دکانیں اور سکول کھلے رہے۔ مقامی افراد اس معاہدے کو مثبت پیش رفت گردان رہے ہیں۔ طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان کئی ماہ سے جاری جھڑپوں کی وجہ سے سوات میں شہری زندگی معطل ہو کر رہ گئی تھی اور یہاں پر حکومتی عمل نہ ہونے کے برابر تھی۔
دو روز قبل حکومت اور کالعدم تنظیم نفاذ شریعت محمدی کے درمیان مالاکنڈ ڈویژن میں تشدد کے خاتمے کے لئے نفاذ شریعت کا معاہدہ ہوا تھا جس پر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اور بھارت سمیت عالمی برادری نے خدشات ظاہر کئے ہیں۔ آج فرانس نے بھی ایک بیان میں کہا کہ اس معاہدے سے خواتین کے حقوق کو دھچکہ لگے گا۔
اُدھر پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل نے کہا ہے کہ سوات میں امن ریلی کی کوریج کرنے والے اس کے ایک رپورٹر موسٰی خان خیل کو قتل کر دیا گیا ہے۔ مقامی صحافیوں نے موسیٰ خان کے قتل پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے قاتلوں کی فوری گرفتاری اور سزا کا مطالبہ کیا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا پاکستان کا شمال مغربی سرحدی صوبہ جہاں اس جنگ میں اب تک سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں اور کئی علاقوں میں طالبان متوازی حکومت قائم کئے ہوئے ہیں۔ پاکستانی حکام کی جانب سے آج بدھ کے روز جاری کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق شمال مغربی علاقوں میں شدت پسندوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں گزشتہ چھ ماہ کے دوران تین لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔