مہاجرين کا بحران : سوئس الیکشن ميں کليدی اہميت کا حامل
16 اکتوبر 2015سوئٹزرلينڈ ميں اس اتوار کو ہونے والے انتخابات کو شام، اریٹريا، افغانستان، عراق اور ديگر ممالک سے مہاجرين کی بڑی تعداد ميں يورپ آمد کے نتيجے ميں دن بہ دن بڑھتی بے چينی کی نشانی کے طور پر ديکھا جا رہا ہے۔ رائے شماری کے ذريعے 200 رکنی نيشنل کونسل اور 46 رکنی کونسل آف اسٹيٹس کا انتخاب کيا جانا ہے۔ رائے عامہ کے تازہ ترين جائزوں کے مطابق نصف سے زائد سوئس شہريوں نے اميگريشن، انضمام اور غير ملکيوں سے منسلک معاملات کو اہم ترين قرار ديا۔ اس کے برعکس يورپی يونين ميں تعلقات، طبی سہوليات کی فراہمی، بے روزگاری اور ماحوليات سے متعلق معاملات کو عوام نے مقابلتاً زيادہ اہم قرار نہيں ديا۔
اميگريشن کا موضوع قوم پرست سوئس پيپلز پارٹی کے ليے کليدی اہميت کا حامل ہے۔ يہ جماعت 8.2 ملين آبادی والے يورپی ملک سوئٹزرلينڈ ميں ديگر ممالک، جن ميں يورپی ممالک بھی شامل ہيں، کے لوگوں کے آنے اور مستقل يا عارضی قيام کرنے کے حوالے سے قوانين ميں سختی کی خواہاں ہے۔ gfs.bern کی جانب سے کرائے گئے رائے عامہ کے ايک تازہ جائزے کے مطابق امکان ہے کہ يہ جماعت 28 فيصد ووٹ حاصل کر سکتی ہے۔ تاہم اس کے امکانات کم ہی ہيں کہ اتحادی حکومت ميں يہ قوم پرست جماعت سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئے۔
gfs.bern سے وابستہ ايک ماہر لُوکاس گولڈر کے مطابق اگرچہ سوئٹزرلينڈ کو جرمنی يا سويڈن جيسے ديگر يورپی ممالک کی طرح بڑی تعداد ميں مہاجرين کی آمد کا سامنا نہيں تاہم مہاجرين کے معاملے پر يورپی يونين کو درپيش مسائل کے نتيجے ميں ايسا موحول ضرور پيدا ہو گيا ہے، جو سوئس پيپلز پارٹی کے مفاد ميں ہے۔
يہ امر اہم ہے کہ سوئس پيپلز پارٹی ملک ميں چہرے پر مکمل نقاب کے خلاف مجوزہ پابندی کے حق ميں ہے جب کہ 2009ء ميں مذہبی مقامات پر ميناروں کی تعمير پر لگائی جانے والی پابندی کے پيچھے بھی يہی جماعت تھی۔ واضح رہے کہ اس پيش رفت کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی تھی۔
سوئٹزرلينڈ ميں تمام غير ملکيوں کے ليے اميگريشن کی حد مقرر کرنے سے متعلق ايک ريفرنڈم کے نتائج پر آئندہ تين سالوں ميں عمل درآمد کا موضوع داخلی سطح پر کافی اہميت کا حامل ہے۔ اس ريفرنڈم کے نتيجے ميں سوئس حکومت کو اٹھائيس رکنی يورپی يونين کے ساتھ اپنے معاہدوں ميں تراميم کرنی پڑ گئيں تھيں، جس سبب برسلز اور سوئس حکومت کے تعلقات کچھ کھچاؤ کا شکار بھی رہے۔