ممتاز قادری کیس: صدر کے اہلخانہ کی رہائش تبدیل
22 فروری 2016ممتاز قادری کے والد بشیر اعوان نے گزشتہ ماہ مجرم کی سزائے موت کے خلاف صدر پاکستان ممنون حسین کو رحم کی اپیل کی تھی۔ سپریم کورٹ ممتاز قادری کی جانب سے سزائے موت کے خلاف دائر نظر ثانی کی درخواست گزشتہ دسمبر میں خارج کر چکی ہے۔ پاکستانی قانون کے مطابق ملکی سپریم کورٹ سے سزائے موت کے خلاف اپیل خارج ہونے کے بعد مجرم آخری مرحلے میں صدر مملکت سے رحم کی اپیل کر سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے مجرم کی نظر ثانی کی درخواست خارج کیے جانے کے بعد بعض مذہبی جماعتوں نے مختلف شہروں میں احتجاج بھی کیا تھا۔ ان جماعتوں کے رہنماؤں نے ممتاز قادری کو پھانسی دیے جانے کی صورت میں سخت رد عمل کی دھمکی بھی دی تھی۔
اسلام آباد پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگر ممتاز قادری کی رحم کی اپیل پر فیصلہ آیا تو اس سے قبل ایوان صدر سمیت اسلام آباد کی سکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔
سکیورٹی امور کے ایک ماہر تجزیہ کار عامر رانا کا کہنا تھا کہ ممتاز قادری کی سزائے موت کے خلاف بریلوی مکتبہ فکر کی ایک تنظیم پاکستان سنی تحریک زیادہ سر گرم نظر آتی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’کراچی کو سنی تحریک کا مضبوط گڑھ سمھجا جاتا ہے اور میرے خیال سے شاید یہی وجہ ہوگی کہ کسی بھی طرح کے ممکنہ ردعمل سے بچنے کے لئے صدر کے اہل خانہ کو ان کی سرکاری رہائش گاہ ایوان صدر میں منتقل کیا گیا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے بعد دہشت گردی کے دیگر مقدمات کے ساتھ ساتھ ممتاز قادری کے مقدمے کی سماعت میں بھی تیزی آئی اور اب وہ بظاہر حتمی مرحلے میں ہے۔ عامر رانا کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کی وجہ سے ہی اس کیس کے خلاف اس طرح کا ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا جس طرح کا اس سے قبل توقع کی جارہی تھی۔ خیال رہے کہ صدر ممنون حسین کے تین صاحبزادے ہیں، جو کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔
پنجاب پولیس کے اہلکار ممتاز قادری نے چار جنوری دو ہزار گیارہ کو صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو وفاقی دارالحکومت کی کوہسار مارکیٹ میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ ممتاز قادری سلمان تاثیر کے حفاظتی گارڈز میں شامل تھا اور اس نے اپنی گرفتاری کے فوراﹰ بعد مبینہ طور پر توہین مذہب کے معاملے پر گورنر کو قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا۔
اس کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم کو دو بار سزائے موت اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزائے موت کو برقرار رکھتے ہوئے ملزم کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ نے نہ صرف سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا بلکہ انسداد دہشت گردی کی دفعات کو بحال کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔