معیاری وقت کی تبدیلی، عدالت کی حکومت سے جواب طلبی
22 اپریل 2009اس حوالے سے دائر کی جانے والی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے بدھ کے روز لاہور ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت سے جواب طلب کر لیا ہے ۔
ایک شہری امتیازرشید قریشی کی طرف سے دائر کی جانے والی اس درخواست کی سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل ڈاکٹر فاروق حسن کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت کو ملک کے معیاری وقت میں تبدیلی کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ۔
ڈاکٹر فاروق حسن کے مطابق اپریل کی چودہ اور پندرہ تاریخ کی درمیانی رات، ملک کے معیاری وقت کوایک گھنٹہ آگے کر دینے کے حوالے سے جاری کئے جانے والے حکومتی نوٹیفکیشن کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین کے فورتھ شیڈول میں حکومتی اختیارات کے حوالے سے ایک لسٹ دی گئی ہے اس فہرست میں معیار ی وقت میں تبدیلی کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین میں وقت آگے پیچھے کرنے کا سرے سے کوئی ذکر ہی موجود نہیں ہے اس لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ حکومت نے کس اختیار کے تحت گھڑیوں کی سوئیاں ایک گھنٹہ آگے کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
ڈاکٹر فاروق حسن کا یہ بھی کہنا تھا کہ تازہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ پاکستان اور بھارت سمیت دنیا کےکئی ملکوں میں معیار ی وقت کی تبدیلی کے ذریعے بجلی کی بچت ممکن ہی نہیں ہے ۔ ان کے مطابق پاکستان میں معیاری وقت تبدیل کرنے کے بعد بجلی کی کھپت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اب لوگ رات کو ایک گھنٹہ زیادہ دیر تک جاگتے ہیں اور صبح ایک گھنٹہ پہلے اٹھتے ہیں جس کی وجہ سے بجلی کی بچت کی بجائے بجلی کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ ان کے مطابق گھڑی کی سوئیاں آگے کر کے بجلی کی بچت کرنا ایک غیر منطقی بات ہے۔
اس درخواست کی سماعت کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ اس درخواست میں اٹھائے گئے اہم آئینی نکات کی تشریح عوامی مفاد کے لئے بہت ضروری ہے۔ عدالت عالیہ نے معیاری وقت کی تبدیلی کے معاملے پر حکم امتناعی جاری کرنے کی ڈاکٹر فاروق حسن کی درخواست کے حوالے سے بھی وفاقی حکومت کو اپنا موقف پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اب اس کیس کی سماعت 30اپریل 2009 کو ہو گی۔